صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
صاحب رحمۃ اللہ علیہ سولہ اسباق پڑھاتے تھے، اور سب مشکوٰۃ ، جلالین سے اوپر کی کتابیں تھیں۔ میرے شیخ بہت بڑے عالم تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی صدر مدرّسی کے لیے انتخاب ہواتھا۔ تو فرمایا کہ مدرسہ میں طلباء کی دعوت میں گائے کاکباب آیا اس بے چارے نے کہاں گائے کاکباب کھایاتھاکیوں کہ ہندو گائے کاگوشت کہاں کھاتے ہیں اس کو تو مزہ آگیا۔ جب اس کوکئی دن گائے کاگرم گرم کباب نہیں ملا تو وہ تتلاتھا، اپنی تتلی زبان میں اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یار!تم لوگ ہر وقت کتاب ہی لیے پھرتے ہو یا کہیں دعوت واوت بھی ہے کہ گائے کاکباب ملے؟ میرے شیخ فرماتے تھےکہ علمِ درسِ نظامی جس نے حاصل کرلیا اس کی مثال اسی کچے قیمہ کے کباب کی سی ہے جس میں کباب کے تمام مسالے اور اجزاء پڑے ہوئے ہیں اور اس کی دستار بندی بھی کردی گئی کہ آج تم شامی کباب ہوگئے لیکن ابھی نہ یہ خود مزہ پائے گا نہ اس کے پاس بیٹھنے والے مزہ پائیں گے جب تک اس کو مجاہدہ کی آگ پر تَلانہ جائے گا۔ لہٰذا اب یہ کسی بزرگ کے پاس جائے اور ان کی صحبت میں رہ کر مجاہدہ کرے اور گناہوں سے بچنے کاغم اٹھائےیہاں تک کہ اس مجاہدہ سے اس کادل جل کر کباب ہوجائے۔ اب اس کے علم کی خوشبو سارے عالم میں پھیل جائے گی۔روحانی بیماریاں ایکسرے میں نہیں آسکتیں میرے شیخ حضرت ہر دوئی دامت برکاتہم کے نائب اور خلیفہ جناب مولانا بشارت علی صاحب ہسپتال گئے۔ ہندو ڈاکٹر نے پوچھا آپ کا کیا نام لکھوں اور آپ کون ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ میرے ایک معالج روحانی پیرو مرشد ہیں۔ میں وہاں ان کے مدرسہ میں نوکر ہوں۔ اس نے لکھ دیا۔ مگر کہا یہ پیرو مرشد کیا ہوتا ہے؟ اور روحانی بیماری کیاہوتی ہے؟تو نائب صاحب نے مجھے بتایا کہ میں نے ہندوڈاکٹر سے کہا کہ روحانی بیماری وہ ہوتی ہے جس کو آپ کاالٹراساؤنڈ، اور آپ کا ایکسرے اور آپ کا آلہ اسٹیتھ اسکوپ اور جملہ جتنے سائنسی آلات ہیں اس بیماری کاپتا نہیں لگا سکتے۔ اس نے کہا:یہ ہم نہیں مانتے ، ہمیں کوئی مثال بتاؤ۔ انہوں نے فرمایا تو مثال سن لو! کہ ایک آدمی حسد کے