صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
پڑھے؟ ان اہلِ ظاہر کو پتا نہیں کہ اس کے علم کا خفیہ رابطہ کس غیر محدود دریائے علم سے ہے۔مولانا فرماتے ہیں ؎ خم کہ از دریا در او راہے شود پیشِ او جیحو نہا زا نو زند جس مٹکے کا رابطہ خفیہ طور پر سمندر سے ہوجائے تو اس کے سامنے بڑے بڑے دریائے جیحوں و فرات زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں کیوں کہ ان دریاؤں کا پانی خشک ہوسکتا ہے لیکن اس مٹکے کا پانی کبھی خشک نہیں ہوگا کیوں کہ اس کے اندر مخفی راستے سے سمندر کا پانی آرہا ہے۔ پس جس کو کسی صاحبِ نسبت کی صحبت سے اﷲ کی محبت حاصل ہو گئی اور اپنے علم پر عمل کی توفیق ہو گئی اس کو علم کی روح حاصل ہو گئی کیوں کہ علم کی روح عمل ہے، علم اسی وقت علم ہوتا ہے جب اس پر عمل کی توفیق ہوجائے ورنہ جس کو اپنے علم پر عمل کی توفیق نہیں وہ عالم کہلانے کا مستحق نہیں مثلاً غضِّ بصرکا حکم معلوم ہو گیا لیکن عمل نہیں کرتا تو اس کو ابھی علم حاصل نہیں ہوا، علم کے صرف نقوش حاصل ہوئے،لیکن جب کوئی حسین شکل سامنے آئے اور غضِّ بصر کے حکم کو اس نے اپنی آنکھوں پر نافذ کر لیا تو علم غضِّ بصر اس کو اب حاصل ہوا۔ معلوم ہوا کہ جو علم مقرون بالعمل نہ ہو علم کہلانے کا مستحق نہیں، صرف اضافۂ معلومات اور ذہنی تعیش ہے۔علمِ نبوت تو ہے مگر نورِ نبوت نہیں فرمایا: علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار علم و فضل کے اعتبار سے اونچے لوگوں میں ہوتا ہے۔ جب یہ زندہ تھے ہر طرف ان کے علم کا شہرہ اور غلغلہ تھا۔ مرنے کے بعد بھی ان کا علمی احترام کم نہ ہوا۔ شروع میں ان کے دل میں اہل اﷲکی خاص وقعت و عظمت نہیں تھی۔ یہ سمجھتے تھے کہ انہیں دنیا میں کوئی کام نہیں رہ گیا ہے اس لیےچہار دیواری میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ مگر جب ایک نادیدہ قوت انہیں کشاں کشاں مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لے گئی اور ان سےاصلاحی تعلق قائم ہوگیا تو ان کے فکر و نظر کا پیمانہ بدل گیا۔ اس کے بعد تو انہیں اس وقت تک کی اپنی تصانیف