صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
چھاتی پر لگا لیتی ہے۔ اب جب صاحب زادہ صاحب منہ لگاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اماں کا دودھ بہت کڑوا ہے، حالاں کہ دودھ کڑوا نہیں ہے۔ اس نے علاج کیا ہے۔ تاکہ اس نالائق کی حرام عادت چھوٹے۔ ایسے ہی اللہ والے گناہوں کی چھاتیوں پر اللہ کے خوف کے نیم کی پتیاں لگا دیتے ہیں۔ ذکر اللہ کی برکت سے، اللہ اللہ کی برکت سے اور اللہ والوں کی صحبت سے دل میں ایسا یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ گناہ خود بخود چھوٹ جاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ والوں کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ پھر سینما چھوڑنا پڑے گا، گناہ چھوڑنا پڑیں گے اور تمام مزے داری کی زندگی چھوڑنا پڑے گی۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا کہ یہ شخص بے وقوف ہے،اللہ والوں کے پاس جانے سے گناہ چھوڑنا نہیں پڑتے خود بخود چھوٹ جاتے ہیں۔اور چھوٹنے کے بعد وہ پچھتاتا بھی نہیں بلکہ کہتا ہے کہ اللہ! تیرا شکر ہے کہ دنیا میں ہی جنت کی زندگی حاصل ہوگئی۔ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہوَ لِمَنۡ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ؎ کی صوفیا کے نزدیک ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ والوں کو دنیا ہی میں ایک جنت گناہ چھوڑنے پر بھی ملتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی حضوریجَنَّۃٌ فِی الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی کیوں کہ گناہ میں رہنا دوزخ کی زندگی ہے،آدمی ہر وقت بے چین اور پریشان رہتا ہے، جب گناہ چھوٹ گیا تو آدمی سکون سے جیتا ہے۔فرماتے ہیں کہ یہ ہےجَنَّۃٌ لِتَرْکِ الْمَعْصِیَۃِ؎یہ جنت ترک ِمعصیت سے ملتی ہے۔تقویٰ کی مشق کیسے اور کہاں ہو؟ اب سوال یہ ہے کہ تقویٰ کی مشق کیسے ہو؟ آنکھوں پر، کانوں پر غرض سارے اعضا پر تقویٰ نافذ کرنے کی مشق کیسے ہوگی؟ تو یہ مشق خانقاہیں کرائیں گی بشرطیکہ وہ خانقاہ کسی سچے اللہ والے کی ہو، حلوے مانڈے والی خانقاہ نہ ہو۔ دیکھ لو حکیم الامت ------------------------------