صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
میں حاجی امداداﷲ کے جمال سے مجمل ہوا ہوں اور حاجی امداد اﷲ رحمۃ اﷲ علیہ کے صدقے میں یہ کمال مجھ کوعطا ہوا ہے۔ میرے شیخ و مرشد مولانا شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کا کانپور میں بیان ہو رہا تھا اور اس بیان میں، میں بحیثیت سامع کے موجود تھا۔ میری اس روایت میں جو آپ کی اس مسجد میں اختر پیش کر رہا ہے صرف شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲعلیہ راوی ہیں جن کو بارہ مرتبہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور جن کو حکیم الامت خط میں محبی و محبوبی شاہ عبدالغنی لکھتے تھے۔ حکیم الامت شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کو لکھتے تھے کہ آپ حاملِ علومِ ولایت اور حاملِ علوم نبوت ہیں۔ انہوں نے یہ روایت مجھ سے کی کہ میں ا س مسجد میں سامع تھا، حکیم الامت کا بیان ہو رہا تھا، مضامین کے واردات عجیب و غریب تھے اتنے میں حضرت نے چیخ ماری حالاں کہ حکیم الامت غالب علی الاحوالِ تھے، ان میں مغلوبیت نہیں تھی مگر کبھی کبھی کاملین بھی مغلوب الحال ہوجاتے ہیں، تو حضرت نے چیخ ماری اورکہا: ہائے امداد اﷲ! اور یہ کہہ کر بیٹھ گئے اور رونے لگے۔آہ! میرے شیخ نے فرمایا کہ اس وقت سارا مجمع رو رہا تھا۔ بعد میں کسی نے پوچھا کہ حضرت! آج کیا بات ہو گئی تھی؟ آپ نے فرمایا کہ اتنے علوم وارد ہو رہے تھے کہ ہم سوچتے تھے کہ پہلے کیا بیان کریں اور بعد میں کیا بیان کریں؟ ترتیب میں ہمارے لیے مشکل پیدا ہو گئی تھی، علوم کی مسلسل بارش ہو رہی تھی حالاں کہ حاجی صاحب سے تعلق سے پہلے یہ بات نہیں تھی، جب حاجی صاحب سے بیعت ہوا اس کے بعد سے علوم کی بارش عطا ہوئی تو جس کا احسان ہے اس محسن کو کیوں نہ یاد کروں۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا ارشادِ مبارک تو دوستو! یہ عرض کر رہا ہوں کہ شیخ عبدالقادرجیلانی بڑے پیر صاحب رحمۃ اﷲعلیہ کا قول مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اختر سے براہِ راست نقل کیا اور مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے بارے میں مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمۃ اﷲعلیہ نے شیخ الحدیث مولانا زکریا رحمۃ اﷲ علیہ سے فرمایا کہ ہندوستان میں نقشبندیہ