صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اجزاکو کس وقت دیگ میں ڈالنا ہے اورکتنی آنچ دینا ہے۔ حتیٰ کہ ایک منٹ قبل تک دیگ میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی پھر باورچی آنچ کھینچ کر دم دیتا ہے اور سارا محلہ خوشبو سے مہک جاتا ہے۔ اسی طرح علماء کا علم مثل اجزائے بریانی کے ہے۔اس میں خوشبو نہیں آسکتی یعنی ان کا علم مقرون بالعمل نہیں ہو سکتا جب تک کسی اﷲ والے شیخِ کامل کی تربیت میں نہ ہو۔ اس کے بغیر علم پر عمل کی توفیق عادتاً محال ہے کیوں کہ محض کتابی علم جس پر عمل نہ ہو علم کہلانے کا مستحق نہیں مثلاً کتاب پڑھ کر یَغُضُّوۡامِنۡ اَبۡصَارِہِمۡ؎ کاحکم معلوم ہوا تو یہ محض نقوشِ علم ہیں لیکن جب اس معلوم کو آنکھوں پر نافذ کیا اور نامحرم سے نگاہ بچائی تو اب یہیَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِہِمْ کا عالم ہوا یعنی معلوم جب معمول بنتا ہے تب وہ علم کہلانے کا مستحق ہے۔ ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے صحابہ کا اجماع نقل کیا ہےاَجْمَعَ السَّلَفُ رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی عَلٰی اَنَّ مَنْ عَصَی اللہَ جَاھِلٌ؎۔یعنی اﷲ کی نافرمانی کرنے والا جاہل ہے اورعمل کی توفیق بدون شیخِ کامل کی تربیت اور مشوروں یعنی اطلاعِ حالات اور اتباعِ تجویزات کے عادتاً ممکن نہیں۔ علم کی بریانی کو شیخ دم دیتا ہے تب اس کی خوشبو ایک عالَم کو معطر کرتی ہے۔ اس کی دلیل کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ ہے۔ ایک محدث نے کیا خوب کہا ہے: اگر ملی نہ غلامی کسی خدا کے ولی کی تو علمِ درسِ نظامی کو علم ہی نہیں کہتےسب سے بڑا دشمن اور اس کا علاج حرم شریف میں ظہر کی نماز پڑھ کر بہت سے لوگ دوبارہ مجلس میں آگئے۔ ارشاد فرمایا کہ ہر شخص کو اپنے نفس کوبدمعاش نمبر وَن یقین کرنا چاہیے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اپنے نفس کو آدمی جتنا خود جانتا ہے دوسرا نہیں جان سکتا۔ ہرشخص کو اپنی بدمعاشیوں کا علم ہے۔اس لیے اپنے بالغ ہونے کے بعد سے اب تک اپنے اعمال کو ------------------------------