صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
فون آتا ہے کہ آج وعظ ہوگا؟ جب کہا جاتا ہے کہ ہاں! تو آتے ہیں اور اگر کہہ دو کہ آج وعظ نہیں ہوگا تو نہیں آتے۔ اس کا نام وعظیہ ہے، ورنہ اگر صحبت کی نیت ہوگی تو کہے گا کہ وعظ تو نہیں ہوگا مگر ملاقات تو ہوجائے گی ان کی صحبت میں تو بیٹھ جائیں گے۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ ایک عاشقِ ذات ہوتا ہےاور ایک عاشقِ صفات ہوتا ہے۔وعظ ایک صفت ہے لہٰذا مربی کی ذات پر عاشق ہو،جب تک وہ زندہ ہےاس کی ملاقات کو نعمت سمجھو۔یہ نہیں کہ وعظ ختم ہوا تو بس وعظیہ بھاگا اور اس کا تعزیہ بھی گیا۔اکابر علماء کی اہل اللہ سے استفادہ کی مثالیں مولانا رومی نے شرم نہیں کی کہ میں’’ بخاری‘‘پڑھاتا ہوں میں معقول اور منقول کا جامع اتنا بڑا عالم ہوں۔ میں کیوں کسی اللہ والے کی جوتیاں اٹھاؤں۔ مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو شرم نہیں آئی۔مولانا رشید احمد گنگوہی کو حیا نہیں آئی۔حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نوّر اللہ مرقدہٗ کو شرم نہیں آئی حا جی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی کی جوتیاں اٹھاتے ہوئے۔ آج جو’’ شرح جامی‘‘ اور’’ کنز الدقائق‘‘ پڑھ لیتا ہے وہ بھی اللہ والوں کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ یہی وجہ ہے کہ قربانی کی کھال کے پیچھے ان کو گالیاں مل رہی ہیں۔میں پوچھتا ہوں کہ مولانا قاسم صاحب نانوتوی قربانی کی کھال لینے گئے تھے؟ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کسی کے دروازے پر گئے تھے؟ شاہ ولی اللہ محدث گئے تھے؟ جن علماء نے اللہ والوں کی جوتیاں اٹھائیں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عزت دی کہ امیروں کو ان کے دروازے پر بھیجاوہ کسی کے دروازے پر نہیں گئے۔اہل اللہ سے استغنا کی سزا بعض اہلِ علم کو اللہ والوں کی جوتیاں اٹھانے میں تو ان کے لیے عار ہے لیکن مال داروں کی جوتیاں اٹھانے میں عار نہیں ہے۔کوئی مال دار کان میں کہہ دے کہ چلیے فیکٹری آپ کو دس ہزار روپے دوں گا تو یہ جھاڑو بھی لگالے گا، لیکن یہ وہ ہے جو اللہ والوں سے اعراض کرتاہے۔