صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
نہیں ہے۔ اختیاری غیر اختیاری کچھ جانتے ہی نہیں۔ چند خواب دیکھ لیے، لیکن زندگی سنت کے خلاف ہے اس کو ولی اللہ سمجھ لیتے ہیں۔ حضرت حکیم الامت نے دین کو صاف کر دیا کہ ولی اللہ وہ ہے جو سنت پر عمل کرتا ہے، شریعت پر عمل کرتا ہے۔ خواب نظر آئےنہ آئے،کرامت ہو نہ ہو۔ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ دین پر قائم رہیں اور نفس وشیطان اور معاشرہ کے جتنے فتنے ہیں ان سے بچتے رہیں تو اللہ والوں کے پاس جایئے۔ اب آپ کہیں گے کہ اس کی کیا دلیل ہے؟دلیلیں تو بہت ہیں مثلاً کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کی دلیل ہے۔ اللہ پاک خود فرمارہے ہیں کہ اللہ سے ڈرو۔لیکن یہ ڈرتم کو کہاں سے ملے گا؟ ڈرنے والوں کے پاس رہوکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَیہ تو قرآنِ پاک کی آیت ہے۔ میں ایک مثال اور عرض کرتا ہوں کہ جب طوفانِ نوح آیا تھا تو حضرت نوح علیہ السلام کو حکم ہوا کہ کشتی بناؤ۔ جو لوگ ان کی کشتی میں بیٹھ گئے وہ طوفان سے بچ گئے، جنہوں نے کشتی کا مذاق اُڑایا کہ جب اتنا طوفان آئے گا تو یہ کشتی کیا کرے گی؟یہ نہیں سوچا کہ کشتی چلانے والا کیسا ہے؟ کشتی کو تو دیکھا کہ لکڑی کی ہے لیکن کشتی چلانے والے کو نہ دیکھا کہ وہ پیغمبر اور نبی ہے۔ لہٰذا جو ظالم کشتی میں نہیں بیٹھے وہ ڈوب گئے اور جو لوگ کشتی میں بیٹھ گئے بچ گئے۔شیخ بنانے کا معیار مولانا روم مثنوی میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی نائبِ بابائے نوح یعنی اللہ والے موجود ہیں۔ان کی کشتیاں موجود ہیں ؎ ہے بیا درکشتئی بابا نشیں مولانا رومی فرماتے ہیں اے بھائیو! بابا کی کشتی میں بیٹھ جاؤ۔یہ بابا کون ہیں؟یہ وہ بابا ہیں کہ جو شریعت اور سنت پر چلتے ہیں اور انہوں نے بھی کسی کو اپنا بابا، اپنا مربی بنایا تھا، یہ تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ لہٰذا ایسے شخص کو بابا نہ سمجھ لینا جس کا کوئی اگلا بابا نہ ہو لَاتَاْخُذُوْہُ بَابَا مَنْ لَّا بَابَالَہٗجیسے بعض لوگ خود ہی مربی بنے ہوئے ہیں۔ حالاں کہ کسی مربی ّ کے ہاتھوں مربّہ نہیں بنے، اپنی تربیت نہیں کرائی۔ جو مربّہ نہ ہو وہ مربیّ