صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
نعوذ باﷲ!۔ خان صاحب نے اپنی بہادری دکھا کر ساری بزرگی پر پانی پھیر دیا۔ اگریہ کسی اﷲ والے کا صحبت یافتہ ہوتا تو کبھی منہ سے یہ کلمہ نہ نکلتا۔ اس کا عشقِ خدا کتنا خام نکلا۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ اس نے ساری عبادت بے کار کر دی اور اپنے ایمان کو کفر سے بدل دیا۔اﷲ بے سمجھی سے بچائے۔فہمِ سلیم، قلبِ سلیم عظیم الشان نعمت ہے اور یہ بغیر اہل اﷲ کی صحبت کے نصیب نہیں ہوتی۔ہزار سال سے زیادہ کا تجربہ اور صلحائے امت کا اتفاق مشہور عالمِ دین مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہٗ (حضرت دنیا سے رحلت فرما چکے ہیں)تحریر فرماتے ہیں’’قریباً ہزار سال بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت سے امتِ محمدیہ کے صالح ترین طبقہ نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ نورِ یقین اور رابطہ مع اﷲ یعنی احسانی نسبت حاصل کرنے کے لیے صوفیائے کرام کا یہ طریقہ (جس کا نام سلوک و طریقت ہے) اصولاً صحیح اور نتیجتاً کامیاب ہے۔کون اس سے انکار کر سکتا ہے کہ مشاہر اولیائے امت مثلاً خواجہ معروف کرخی، بشر حافی، سری سقطی، شفیق بلخی، بایزید بسطامی، جنید بغدادی، ابوبکر شبلی ،شیخ عبدالقادر جیلانی، شیخ شہاب الدین سہروردی، شیخ احمد رفاعی، شیخ ابوالحسن شاذلی، خواجہ عثمان ہارونی، خواجہ معین الدین چشتی، خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی اورپھر ہمارے اس دوسرے ہزارہ کی گزشتہ تین صدیوں میں خواجہ باقی باﷲ، امام ربانی مجدد الف ثانی،شیخ احمد سرہندی اوران کے خلفا اور شاہ ولی اﷲ دہلوی اور سید احمد شہید (رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین) اور ان جیسے ہزاروں بلا شبہ ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد ہیں جو اپنے اپنے وقت میں اس نسبت کے حامل بلکہ اس راہ کے امام اور داعی ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک ایک کی صحبت اور تربیت سے اﷲ کے ہزاروں لاکھوں بندوں کو یہ دولت حاصل ہوئی ہے۔ جو شخص ان سلسلوں سے کچھ بھی واقفیت رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ان بزرگوں کو جو کچھ حاصل ہوا اسی راہ سے حاصل ہوا تھا۔ پس جس طریقے نے امتِ محمدیہ میں اتنے کاملین اور اس قدر اصحابِ احسان و یقین پیدا کیے ہوں جن کو بجا طور سے اس امت کا گل سرسبد کہا جاسکتا ہے اس کے صحیح اور کامیاب و مقبول ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے‘‘۔