صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
آگیا لیکن جب وہ کسی اﷲ والے سے اﷲ کی محبت اور اﷲ کا خوف اور اﷲ کا نور حاصل کرے گا تو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ہو جائے گا۔ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ علم کا نور الگ ہے، عمل کا نور الگ ہے، اخلاص کا نور الگ ہے۔ لہٰذا جب عالم اﷲ والا بنتا ہے تو یہ خالی صاحبِ نور نہیں ہوتا بلکہ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ہوتا ہے، اور جب غیر عالم اﷲ کا ولی بنتا ہے تو صاحبِ نور ہوتا ہے مگر علم کی برکت سے عالِم سارے عالَم کو روشن کرتا ہے۔ایک عالم کا ولی اﷲ بننے کا واقعہ ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک عالم نفلی حج کو جارہے تھے، ان سے ایک بزرگ نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو؟ کہا کہ حج کرنے۔ کہا کہ جس کے گھر جارہے ہو اس گھر والے سے بھی جان پہچان ہے؟ بس رونے لگے، رقت طاری ہو گئی کہ اس گھر والے سے تو جان پہچان نہیں ہے۔ تو فرمایا کہ میرے پاس ایک سال رہو، وہ ان کے پاس ایک سال رہے اور اس زمانے میں شیخ نے ان کو فتویٰ دینے سے، درس و تدریس کرنے سے، وعظ کہنے سے بھی روک دیا۔ مگر وہ بھی مخلص تھے، سمجھ گئے کہ مجھے میرا شیخ اخلاص اور اﷲ کی محبت دینا چاہتا ہے اس لیے مخلوق کے اندر نہیں جانے دے رہا ہے تاکہ خالق سے اس کو چپکا دوں جب خالق دل میں ہوگا تو پھر مخلوق کی خدمت یہ اخلاص سے کرے گا۔ ملّا علی قاری نے’’ شرح مشکوٰۃ‘‘میں لکھا ہے کہ بہت سے علماء بھی ناراض ہو گئے کہ یہ کیسا پیر ہے جو درس و وعظ، پڑھنالکھنا سب سے منع کر رہا ہے لیکن جب ایک سال کے بعد انہوں نے اجازت دی کہ اب سب کام کر سکتے ہو تو پھر سال بھر خاموشی کے بعد ایک وعظ جو کہا تو سب رونے لگے۔ مولانا شاہ محمداحمد صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اے صوفیو! اور اے علماء! پہلے شیخ کے پاس اپنا مٹکا بھرو، جب مٹکا بھر کر چھلکنے لگے تو چھلکتا ہوا مال مخلوق کو دو، اپنا مٹکا مت خالی کرو۔ تو جب وہ عالم اﷲ والے بن گئے تب ان کا ایک وعظ ہوا اور مسجد میں جتنے لوگ تھے سب ولی اﷲ ہو گئے، تب وہ عالم رونے لگے کہ دس سال تک میں نے وعظ کہا اور کوئی ولی اﷲ نہ بنا لیکن