صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
تحصیلِ علم کے ساتھ اہل اﷲ سے تعلق مدرسہ کا ایک بچہ تسبیح لایا اسے حضرت والا نے روزانہ ۳۰۰ بار اﷲ اﷲ کرنا بتا دیا۔ فرمایا کہ ہم اس کے گرو ہیں یہ ہمارا سب سے چھوٹا چیلا ہے۔ مشایخ پہلے طالب علم کو مرید ہونے کو منع فرماتے تھے، حضرت مولانا تھانوی نے طالب علمی کے زمانے میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی سے بیعت ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی فرمایا کہ یہ شیطانی وسوسہ ہے، اس وقت علم حاصل کرنے میں لگے رہو۔ لیکن اب کیوں کہ فتنے کا زمانہ ہے، جو طالب علم بغیر کسی اﷲ والے سے تعلق کیے ہوئے علم حاصل کرتے ہیں مدرسوں سے بالکل کورے نکلتے ہیں، کتابی علم ہوتا ہے سینے نور سے خالی ہوتے ہیں لہٰذا میرے شیخ نے اس فیصلے کو تبدیل فرمایا اور فرمایا کہ اس زمانے میں طالب علموں کو چاہیے کہ کسی اﷲ والے سے بیعت ہوجائیں تاکہ علم کا نور ان کے دلوں میں اتر جائے اور عمل کی توفیق ہوجائے۔ زمانے کے ساتھ احکام بدلتے رہتے ہیں۔ اﷲ اﷲ کرنے کی برکت سے ان طلبہ کی باتوں میں اثر ہی کچھ اور ہوجاتا ہے۔ اور جو اس زمانے میں اﷲ اﷲ نہیں کرتے وہ کیوں کہ خود عمل سے کورے ہوتے ہیں ان کی باتوں میں اثر بھی نہیں ہوتا۔تعلق مع اﷲ حاصل کرنے کا طریقہ ارشاد فرمایا کہ زمانہ ایک رخ بہا جارہا ہے پھر زمانے کے خلاف چلنے کی قوت کیسے پیدا ہو،ایمانِ کامل کیسے حاصل ہو؟ بس ا س کا ایک ہی راستہ ہے کسی اﷲ والے کے پاس رہ پڑو۔ ایمان کا ادنیٰ درجہ تو ہر مومن کو حاصل ہے۔ ضرورت تو کمالِ ایمان کی ہے۔ یہ راستہ تو ولایت کا ہے، ایمان کے ادنیٰ درجہ پر قناعت کرنے کا نہیں۔ ایمان کا کمال حاصل ہوگا کسی اﷲ والے کے پاس رہنے سے۔ جو لوگ ہر وقت فاسقوں اور نافرمانوں کے پاس بیٹھتے ہیں ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی ان جیسے ہی نہ ہوجائیں جیسے کوئی ناک والا نکٹوں میں چلا گیا تھا تو نکٹوں نے اسے ہی نکٹا بنا دیا۔شور مچ گیا کہ نکٹا آگیا،نکٹا آگیا۔ نکٹوں کے پاس رہنے سے پھر وہ سوچنے لگتا ہے کہ میں ہی نکٹا ہوں اور یہ گناہ کی لذتیں