صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
مناسک الحج کے مصنّف محدثِ عظیم ملّا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ سے کعبہ شریف میں ایک غلطی ہو گئی تو ایک عرب کے لڑکے نے کہا کہاَمَا قَرَاْتَ مَنَاسِکَ الْحَجِّ لِلْمُلَّا عَلِیِّ الْقَارِی؟ کیا تو نے ملّا علی قاری کی مناسک الحج نہیں پڑھی؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہی ملّا علی قاری ہوں۔ مگر عملی مشق نہیں تھی چناں چہ غلطی ہو گئی۔ اس لیے عمل، عمل والوں سے ملتا ہے۔ دیکھیے! نئی موٹر ہے، کئی میل تک اس کی روشنی جارہی ہے اور سارا راستہ بالکل صاف نظر آرہا ہے مگر کیا بغیر پیٹرول کے موٹر چل سکتی ہے؟ اسی طرح علم روشنی ہے مگر علم پر عمل کرنے کے لیے پیٹرول چاہیے اوراﷲ کی محبت کا پیٹرول اور اﷲ کے خوف کا پیٹرول اﷲ والوں کے سینوں سے ملتا ہے۔ آج میں آپ لوگوں سے پوچھتا ہوں خاص کر علمائے دین سے کہ یہ بتائیے! کہ مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اﷲ علیہ، قطب العالم مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ اور مجددِ زمانہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس علم کی کوئی کمی تھی؟یہ علم کے سمندر تھے کہ نہیں؟ لیکن علم کے سمندر حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس قلندر بننے گئے تھے۔علم کا سمندر اگر اﷲ والوں کی صحبت نہیں اٹھائے گا تو قلندر نہیں ہو سکتا۔ نفس کا بندر رہے گا۔نفس کے تابع ہوجائے گا۔ نفس کی شہوت کی اتباع کرے گا کیوں کہ دل میں محبت کا پیٹرول نہیں ہے۔علمِ نافع اور علمِ غیر نافع کی مثال جب ہماری گاڑی مکے شریف سے دو میل دور رہ گئی تو میرے شیخ کے خلیفہ انجینئر انوار الحق پیٹرول پمپ پر پیٹرول لینے رُک گئے۔ اتنے میں ایک ٹینکر آیا جس کی پیٹھ پر دو ہزار گیلن پیٹرول لدا ہوا تھا۔ میرے شیخ نے فرمایا کہ یہ ٹینکر پیٹرول پمپ پر کیوں آیا ہے؟ کیا یہ بھی پیٹرول مانگ رہا ہے؟ پھر فرمایا کہ اس کے انجن میں پیٹرول نہیں ہے۔ لہٰذا پیٹھ پر لدا ہوا پیٹرول اس کے کام نہیں آئے گا اسی طرح جب تک دل کے اندر اﷲ کی محبت نہ ہوگی پیٹھ پر ایک ہزار کتاب رکھے رہو، ’’شرح ہدایہ‘‘ رکھے رہو مگر ہدایت نہیں ملے گی۔ جب انسان مدرسے سے عالم ہو گیا تو اس کے اندر علم کا نور تو