صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
کیفیتِ راسخہ حاصل ہوجائے کہ اﷲ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ جس کو یہ کیفیتِ راسخہ حاصل ہو گئی اس کا ایمان بھی حسین ہوجاتا ہے۔ اس کا اسلام بھی حسین ہوجاتا ہے۔ احسان بابِ افعال سے ہے اور بابِ افعال کبھی معنیٰ میں اسم فاعل کے ہوتا ہے، احسان معنیٰ میں محسن کے ہے۔ معنیٰ یہ ہوئے کہ احسان ایمان کو بھی حسین کر دیتا ہے، اسلام کو بھی حسین کر دیتا ہے، اس کی بندگی ہر وقت حسین رہتی ہے۔جس کو ہر وقت یہ استحضار ہو کہ میرا اﷲ مجھ کو دیکھ رہا ہے اس کا ایمان حسین نہیں ہوگا؟ اس کو تو ہر وقت حضوری حاصل ہوگی۔ ایمان بالغیب نام کا ایمان بالغیب رہ جائے گا،اور اس کا اسلام بھی حسین ہوجائے گا یعنی اس کی نماز، اس کی تلاوت، اس کا سجدہ سب حسین ہوجائے گا۔لہٰذا شیخ کے پاس اضافۂ علم کی نیت سے نہ جاؤ،اس نیت سے جاؤ کہ اس کے قلب کی کیفیتِ احسانی، اﷲ تعالیٰ کا تعلق،قرب و حضوری، ہمت وتقویٰ، ایمان و یقین کا اعلیٰ مقام ہمارے قلب میں منتقل ہوجائے۔کیفیتِ احسانی اور طریقۂ تحصیل علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے’’ فتح الباری شرح بخاری‘‘ میں اس احسانی کیفیت کو بیان فرمایا کہ احسان کیا ہے؟ فرماتے ہیں: اَنْ یَّغْلِبَ عَلَیْہِ مُشَاہَدَۃُ الْحَقِّ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَاَنَّہٗ یَرَی اللہَ تَعَالٰی شَانُہٗ بِعَیْنِہٖ؎یعنی مشاہدۂ حق ایسا غالب ہوجائے کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے اﷲ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔اس کیفیت کو مدارس سے، کتابوں سے، تبلیغ سے، تدریس سے کوئی نہیں پاسکتا۔ یہ کیفیت صرف اور صرف اہل اﷲ کے سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی ہے۔ کیفیاتِ کے حامل قلوب ہوتے ہیں۔ قوالب اور اوراقِ کتب نہیں ہوتے۔ کتابوں سے یہ چیز نہیں مل سکتی۔ کمیاتِ شرعیہ کتابوں سے ملتی ہیں لیکن کیفیتِ احسانیہ کے حامل اوراق کتب نہیں ہو سکتے۔ یہ کیفیاتِ احسانیہ سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں۔ لہٰذا جب شیخ کے پاس جاؤ تو اضافۂ علم کی نیت نہ کرو کیفیتِ احسانیہ کی ترقی کی نیت کرنی چاہیے۔ ------------------------------