صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
کی ضرورت ہے۔اور وہ اہلِ ہمت سے ملتی ہے جو کہ ہر وقت یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗرہتے ہیں یعنی اﷲ کی ذات کو مراد بنائے رہتے ہیں۔ یہ آیت حضرات صحابۂ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم پر اتری تھی۔ اور یُرِیْدُوْنَ فعلِ مضارع لا کر اﷲ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی اس زمانۂ حال اور مستقبل کی وفاداری کی ضمانت دی کہ اب بھی اور مستقبل میں بھی میرے مرید ہیں اور میں ان کی مراد ہوں۔یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ جملہ خبریہ نازل فرما کر بتلایا کہ جس کو میری معرفت حاصل ہوجائے گی وہ میرا ہی مرید ہوگا۔ جس شخص کا کوئی بھی ارادہ نہ ہو وہ گناہ سے نہیں بچ سکتا۔ارادۂ خیر سے خیر ملے گی نفسِ اَمَّارَۃ بِالسُّوْءِکے لیے ارادہ بالخیر ضروری ہے، اگر دل کسی ارادے سے خالی ہوگا تو خودبخود اِرَادَہْ بِالشَّرِ آجائے گا کیوں کہ نفس کی فطرت اِرَادَہْ بِالسُّوْءِ ہے یعنی کَثِیْرُ الْعَمَلِ بِالسُّوْءِ بہت زیادہ بُرائی کا حکم دینے والا، اور بِالسُّوْءِ کا الف لام جنس کے لیے ہے کہ گناہ کی کوئی قسم ایسی نہیں جو اس میں داخل نہ ہو۔ تو مولیٰ نے مولیٰ ملنے کا طریقہ خود بتلا دیا کہ میرے پانے والوں کے ساتھ رہو۔جیسے کباب کا عاشق کباب والے کے ساتھ رہے گا تو کباب پائے گا۔ اگر کسی کے پاس کباب ہی نہ ہوں تو کیا پائے گا؟ اور جب مولیٰ والے بنو گے تو اندھیرے خودبخود چھٹ جائیں گے۔ چمگادڑ سورج کا سامنا نہیں کر سکتا۔اندھیرا اور نور جمع نہیں ہو سکتا۔ جہاں اﷲ تعالیٰ ہے وہاں گناہوں کے تقاضے مضمحل ہوجاتے ہیں۔ اگر قرآن نازل ہوجاتا اور ہر ایک کے گھر پہنچ جاتا تو کوئی بھی صحابی نہ بن سکتا، صحابیت کے لیے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت ضروری ہے۔ قرآن راستہ دکھلاتا ہے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس راستے پر چلاتے ہیں۔ اگر صرف علم پڑھ کر ولی اﷲ بن سکتے تو کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ نازل نہ ہوتا۔صحبتِ اہل اﷲ اور علمِ لدنّی ارشاد فرمایا کہ ’’لوحِ محفوظت پیشا نئی یار‘‘جن اہل اﷲ کا تزکیہ ہو چکا ہے ان کا علم بھی مزکّٰی ہوتا ہے اور نفس کی ظلمت سے پاک ہوتا ہے ورنہ جن علماء کا تزکیہ نہیں ہوا ہوتا ان کے علم میں نفس کی ظلمت کی آمیزش ہوتی ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎