صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
سلسلہ میں ان سے اتنا زیادہ تعلق مع اﷲ کسی اورکا نہیں ہے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اے مدرسہ کے طالب علمو! اور اے مدرسہ کے فارغین علماء! درسِ نظامی سے فارغ ہو کر کسی اﷲ و الے کی صحبت میں چھ مہینے گزار لو، پھرتمہارا جتناعلم ہے اس میں رس آجائے گا ورنہ گولہ تو رہے گا رس نہیں رہے گا، جب دردِدل حاصل ہوجائے گا پھرتمہارا منبر، منبر ہوگا، تمہارا سجدہ، سجدہ ہوگا، تمہاری تلاوت، تلاوت ہوگی ورنہ روحانیت نہیں رہے گی۔شریعت و طریقت کی تفہیم ایک مثال سے شریعت اسٹرکچر ہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت و خشیت اس کی فنشنگ ہے، شریعت کا علم صورتِ کباب ہے بغیر تلے ہوئے کچے کباب کے مانند ہے اور طریقت کیا ہے کہ اس کچے کباب کو اﷲ کے عشق میں جلا بھنا کر گرما گرم کر دو، تیز آگ لگاؤ اور کڑھائی میں سرسوں کا تیل ڈالو اور کچے کباب کو تل دو تو اتنی دور تک خوشبو جائے گی کہ ہندو بھی گزرے گاتو وہ بھی کہے گا کہ’’بوئے کباب مارا مسلمان کرد‘‘ اس کباب کی خوشبو نے تو مجھے مسلمان کردیا۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ ایک ہندو لڑکا مسلمان ہو گیا جو توتلا تھا۔ تو میرے شیخ نے فرمایا کہ ہندو چوں کہ گائے کا گوشت نہیں کھاتے، گائے کو وہ ماں کہتے ہیں۔ لہٰذا وہ لحمِ مادر نہیں کھا سکتے اور گائے کا کباب زیادہ اچھا ہوتا ہے بکرے کے کباب سے۔ توکہیں سے دعوت آئی اورکسی نے طلبہ کے لیے گرما گرم کباب بھیجے تو اس نو مسلم ہندو لڑکے نے زندگی میں پہلی دفعہ گائے کاگرما گرم خوشبودار تلا ہواکباب کھایاتو وہ ظالم کہنے لگا کہ آہ! کیا مزہ ہے مسلمانوں کے پاس۔ الحمدﷲ! کہ میں مسلمان ہو گیا۔ اب کئی دن گزر گئے اور کہیں سے دعوت نہیں آئی تو اسے کباب کی یاد ستانے لگی کہ پھر کب دعوت آئے گی؟ تو وہ اپنے طالب علم ساتھیوں سے توتلی زبان میں کہتا تھا کہ ٹٹبیہ ہی لیے پھرٹ ہو یا کہوں دعوٹ وعوٹ بھی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اس زبان کوسمجھ سکتے ہیں اعظم گڑھ کی۔ جونپور کی زبان میں وہ کہتا تھا