صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اکثر وعظ میں مرحوم اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے ؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا اور ارشاد فرماتے تھے کہ اہل اﷲ کی صحبت سے جاہل اﷲ تعالیٰ کا ولی بن جاتا ہے اور بدون صحبتِ اہل اﷲ کوئی عالم اﷲ تعالیٰ کا ولی نہیں ہو سکتا۔ عادت اﷲ یہی ہے کہ اصلاح بدون مصلح ممکن نہیں۔ اسی لیے میں کہا کرتا ہوں کہ اہل اﷲ کی صحبت فرضِ عین ہے کیوں کہ اصلاحِ نفس جو فرض ہے اس کا موقوف علیہ یہی صحبت ہے۔صحبتِ اہل اﷲ سے کیا ملتا ہے آں چشم شوخش رانگر مست از خرابات آمدہ در قصد کون عاشقاں اندر کمر دامن زدہ ترجمہ و تشریح:مولانا رومی فرماتے ہیں کہ میرے مرشد شمس تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی مست پُر خمار آنکھیں تو دیکھو کہ عالمِ ھُوْ سے کیا پی کر آئے ہیں۔ یعنی ذکر اﷲ کے نشہ سے کس قدر سرشار ہیں اور اپنے طالبین و عاشقین کو اپنی نگاہوں سے قتل کرنے کے لیے اپنی کمر کو دامن سے باندھے ہوئے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اپنے طالبین و مریدین کو بھی خدائے پاک کی محبت کا درد عطا فرما کر خدا کا دیوانہ بنانا چاہتے ہیں۔ بعض اہلِ ظاہر کہتے ہیں کہ ذکر میں کیا نشہ ہو سکتا ہے تو واقعی جانِ ناکساں و محروماں کو یہی معلوم ہوتا ہے، لیکن جب کسی اﷲ والے کی نظر پڑ جائے اور کسی بزرگِ کامل کی جوتیاں سیدھی کرنے کی توفیق ہوجائے تو معلوم ہوگا کہ اہل اﷲ کے پاس کیا کیف و سرور ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ پہلے تو تصوف سے بیگانہ تھے، صوفیائے کرام کی طرف التفات کو اپنی وقارِ علمی کے خلاف سمجھتے تھے لیکن تقدیر ان کو تھانہ بھون لائی اور شیخ تھانوی رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہو کر ذکر و شغل شروع کیا۔ پھر تو جو چاشنی اور لذتِ روحانی ملی اس کو خود ان ہی کی زبان سے سنیے۔ یہ علامہ موصوف کے اشعار ہیں ذکر اور تہجد کو کس انداز سے بیان فرمایا ہے ؎