صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
ادنیٰ صحابی کے ایمان کو ایک طرف رکھا جائے تو سارے اولیاء کے ایمان کا مجموعہ اس صحابی کے ایمان کو نہیں پاسکتا۔کیوں؟ اس لیے کہ جنہوں نے انوارِ نبوت کا دس کروڑ ملین پاور کا بلب دیکھ لیا ان کو دس ہزار پاور کے بلب دیکھنے والے کیسے پاسکتے ہیں۔حضور صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی نگاہِ نبوت سے جس کو ایک دفعہ دیکھ لیتے تھے شعاعِ نبوت اس صحابی کے ذرّے ذرّے میں داخل ہوجاتی تھی۔ جیسے آج کل الٹراساؤنڈ ہے کہ اس کی شعائیں انسان کے جسم میں داخل ہوجاتی ہیں اسی طرح شمعِ نبوت کی شعائیں صحابہ رضی اﷲ عنہم کے قلب وجاں کے ذرّے ذرّے میں داخل ہو جاتی تھیں۔ ایسا زبردست ایمان نصیب ہوتا تھا۔تقویٰ کے دو تار جس طرح دو تاروں سے بلب جلتے ہیں: ایک مثبت، ایک منفی۔ اسی طرح محبت و تقویٰ کا چراغ دل میں روشن ہوتا ہے جب دو تار جلتے ہیں ایک مثبت یعنی التزامِ ذکر اپنے گھر پر، اور دوسرا منفی تار یعنی شیخ کی صحبت۔ ذکر اور وظیفہ تو شیطان بھی بہت کرتا تھا لیکن شیخ کی صحبت میسر نہ تھی۔ جس کا انجام یہ ہوا کہ منفی تار نہ لگ سکا اور اس کا ’’اَنَا‘‘ فنا نہ ہو سکا۔ انانیت اور تکبر اور نفس کی تمام خودبینی اور خود رائی کو شیخ کی صحبت ہی مٹاتی ہے۔ پس ولایت کے لیے یہ دونوں اجزا از بس ضروری ہیں۔ التزامِ ذکر اور صحبتِ شیخ ان دونوں تاروں سے ولایت کا چراغ روشن ہوتا ہے۔فیوض و برکاتِ شیخ کی عجیب مثال ارشاد فرمایا کہ بعض لوگوں نے کہا کہ تمہاری تقریر میں عشق و محبت کا رنگ ہوتا ہےاور تمہارے شیخ کی تقریر کا دوسرا رنگ ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ سنو! پاور ہاؤس سے بجلی سفید رنگ کی آتی ہےلیکن جس بلب میں جو رنگ ہوتا ہے اسی رنگ میں منتقل ہوجاتی ہے۔ میرے شیخ ہردوئی کے فیوض کی بجلی میرے بلب میں آکر ہری ہوجاتی ہے کیوں کہ میرا بلب بچپن سے رنگین اور گرین ہے۔ یہ سب شیخ ہی کا فیض ہے۔ کٹ آؤٹ لگا ہوا ہے ورنہ ابھی کٹ آؤٹ ہٹ جائے تو سب نور گیٹ آؤٹ