صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
نعمت نہیں ہے لیکن ہم خوش ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جو تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ پیری مریدی والے سب چکر باز ہیں پاگل ہیں ان کے لیے میں ایک شعر پڑھتا ہوں ؎ مرے حال پر تبصرہ کرنے والو! تمہیں بھی اگر عشق یہ دن دِکھائےصحبتِ شیخ کے فیوض و برکات الحمدﷲ! کہ بچپن ہی سے اﷲ نے مجھے اہل اﷲکی محبت عطا فرمائی اور میں نے کسی کی پروا نہیں کی یہاں تک کہ اساتذہ بھی منع کرتے تھے گو اخلاص سے کہ پیری مریدی میں کہیں اس کی علمی استعداد کمزور نہ ہوجائے۔ میں نے کہا کہ میں ہر طرح سے برباد ہونے کے لیے تیار ہوں مگر اپنے قلب میں اپنے مولیٰ کو آباد کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے سب کے تبصرے منظور ہیں۔ لیکن اب وہی اساتذہ جو ہم کو منع کرتے تھے کہ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس زیادہ مت جایا کرو،علم میں زیادہ محنت کرو، ان ہی اساتذہ نے جنہوں نے ہمیں’’ مشکوٰۃ شریف‘‘پڑھائی تھی جب میری تقریر سنی تو ٹوپی اتار کر فرمایا کہ میرے سر پر ہاتھ رکھ دو۔ اورمیری مثنوی کی شرح پڑ ھ کرمیرے فارسی کے استاد نے پوچھا کہ کیاتم نے کہیں اور بھی فارسی پڑھی ہے؟ میں نے کہا کہ آپ نے جو فارسی پڑھائی تھی اتنی ہی پڑھی ہے باقی سب حضرت کی کرامت و برکت ہے کہ اہلِ ایران جن کی مادری زبان فارسی ہے وہاں کے ایک بڑے عالم علامہ زاہد نیشا پوری نے خط لکھا کہ تمہاری مثنوی جو پڑھتا ہے اس کو مثنوی مولانا روم سمجھتا ہے ’’ہر کہ او مثنوی اختر رابخواند اورامولانا روم پندارد۔‘‘حضرت والاکی شرح مثنوی پرعلامہ بنوری کا ارشادِ مبارک مولانا یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ نے میرا صرف ایک شعر دیکھا وہ کیا شعر تھا کہ ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد