صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
قرآنِ پاک میں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَفرمائی ہے۔ جس کی تفسیر روح المعانی میں یہ ہے اَیْ لِکَیْ تَصِلُوْا بِذٰلِکَ اِلٰی مَرْتَبۃِ التَّقْوٰی؎ تاکہ ان کے ذریعے تم مرتبۂ تقویٰ تک پہنچ جاؤ۔ اور دوسری آیتکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ میں صادقین کی صحبت کو بھی تقویٰ کا ذریعہ بتایا گیا۔ معلوم ہوا کہ رمضان المبارک تقویٰ کا سببِ زمانی اور صحبتِ صادقین سببِ مکانی ہے۔ پس رمضان میں کاملین کی صحبتِ سے تقویٰ پیدا کرنے کے دونوں اسباب، زمان و مکان کے جمع ہوجاتے ہیں جس سے تقویٰ کا راستہ جلد طے ہوتا ہے۔ مشایخ کے یہاں رمضان میں سالکین کے جمع ہونے کی اصل یہ معلوم ہوتی ہے۔صحبتِ اہل اﷲ کی برکات اور بزرگوں کی کرامات اﷲ تعالیٰ کا کرم ہے بدونِ استحقاق یہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے، میرے بزرگوں کی کرامت ہے یہ، ورنہ اختر چالیس سال تک پانچ منٹ تقریر نہیں کر سکتا تھا۔ جب میری تقریر مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے سنی تو فرمایاکہ اﷲ تعالیٰ نے تم کو دل بھی دیا اور زبان بھی دی۔ اور یہ بھی فرمایا کہ چالیس سال تک جو تم کو بولنا نصیب نہیں ہوا وہ مشابہت ہے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کی۔ فرمایا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے حالات میں لکھا ہے کہ چالیس سال تک اﷲ نے مجھ کو بے زبان رکھا اور اس کے بعد زبان عطا فرمائی۔ تو میں نے اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اور یہ بھی لکھا کہ بولنے میں جلدی مت کرو، تقریر جلدی مت کرو، پہلے کسی اﷲ والے کی صحبت میں رہو اور اپنے دل کا مٹکا بھرو۔ جب جام بھر کر چھلکنے لگے تو امت کو چھلکتا ہوا مال دو، اپنا مٹکا نہ خالی کرو۔ مگر آج اس زمانے میں اہل اﷲ سے، اولیاء اﷲ سے اور ان کے غلاموں سے اہلِ علم بہت دور دور رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کتب بینی تو کرتے ہیں قطب بینی نہیں کرتے۔ اسی کا انجام یہ ہے کہ آج امت میں ان کی عظمت نہیں ہے۔جس کو دیکھو ارے میاں! مولویوں کو چھوڑو، گولی مارو، ان کی بات میں کوئی مزہ نہیں۔ لیکن اگر کسی اﷲ والے سے دوستی کر لو، اﷲ اﷲ کرلو تھوڑا سا، اور تمہارے دل ------------------------------