صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
نے شیطان سے کہا کہ میں بے دلیل خدا کو ایک مانتا ہوں۔ تب جا کر ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا۔ شیخ کا تعلق اور شیخ کی دُعا کام آئی۔اللہ تعالیٰ نے شیطان سے اپنی پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے بحث کرنے کو نہیں فرمایا۔راہ بر کے بغیر راستہ طے نہیں ہوسکتا بس کسی اللہ والے کے مشورے سے اللہ کا نام لینا شروع کردو، کیوں کہ جو لوگ مشورے کے بغیر ذکر کرتے ہیں تو اللہ کے نام کا مزہ پاکر بعض وقت زیادہ ذکر کر لیتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر کہے کہ بھئی! آپ آدھا سیر دودھ پینااور وہ ڈیڑھ کلو پی جائے تو دست لگ جائیں گے کہ نہیں؟ چناں چہ کل ایک صاحب آئے۔ کہنے لگے کہ میرا ایک عزیز ایم۔ بی۔بی۔ ایس کا سالانہ امتحان دے رہا ہے۔امتحان میں تین مہینے رہ گئے ہیں لیکن زیادہ ذکر وظیفہ اور تلاوت کرتے کرتے اس کا دماغی توازن غیر معتدل ہوگیا، نعرے مارتا ہے اور ایک مرتبہ امام صاحب کے مصلیٰ پر بیٹھ گیا اور کہتا تھا کہ اب میں نماز پڑھاؤں گا۔ بڑی مشکل سے اس کو کھینچ کر ہٹایا گیا تو دماغی اعتدال از حد لازم ہے۔ جو لوگ بلا راہ بر، بغیر راہ نما، بغیر مشایخ اور بزرگوں کے اس راہ میں سفر کرتے ہیں ان کا یہی حشر ہوتا ہے، زیادہ وظیفے پڑھ کر ان کو جلال آتا ہے اور ان کی پاگل پن کی باتوں سے سارا گھر ان سے پریشان رہتا ہے اور دین سے نفرت پیدا ہونے لگتی ہے۔ دین اس کانام تھوڑی ہے کہ ہر وقت غصے اور چڑچڑاہٹ میں رہو اور دین کو ایسا دکھاؤ کہ معلوم ہوتا ہے جیسے دین ایک بھیڑیا ہے۔دین کوئی بھیڑیا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی وجہ سے دین سے نفرت پھیلتی ہے ۔لوگ ان کو مجذوب سمجھتے ہیں حالاں کہ یہ مجذوب نہیں پاگل ہیں۔ زیادہ وظیفہ پڑھنے سے دماغ گرم ہوجاتا ہے اور یہ پاگل ہوجاتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم کو جلال آرہا ہے۔جلال ولال کچھ نہیں ہےیہ سب پاگل ہیں۔ اعتدال اہل اللہ کی صحبت ہی سے نصیب ہوتا ہے۔ جیسے کار کتنی ہی عمدہ ہو مگر ڈرائیور کا ہونا ضروری ہے اور وہ ڈرائیور بوٹ پہنے گا