صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اہل اللہ کے سامنے اپنے نفس کو مٹائے بغیر اللہ نہیں ملتے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کو نہیں دیکھا کہ میں کیا ہوں۔ جب شمس الدین تبریزی کابستر شاہِ خوارزم کے نواسے نے سرپر رکھا تھا تو ایک شعر کہاتھا ؎ ایں چنیں شیخ گدائے کوبہ کو عشق آمدلَا اُبَالِیْ فَاتَّقُوْا میں اتنا بڑا شیخ اور عالم تھا۔آج اللہ کے عشق نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ گلی درگلی شمس الدین تبریزی کی غلامی کررہاہوں۔ لیکن یہ ان کی غلامی نہیں تھی، اللہ ہی کی غلامی تھی۔ اللہ ہی کے لیے مٹایا تھا اپنے آپ کو۔ اہل اللہ کااکرام وہی کرتا ہے جس کے دل میں اللہ کی طلب اور پیاس ہوتی ہے۔ خواجہ صاحب ڈپٹی کلکٹر تھے، گریجویٹ تھے، الٰہ آباد یونیورسٹی سے بی۔ ۱ے کیا تھا۔ لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی چند دن کی صحبت سے اللہ کی نسبت پاگئے۔ تعلق مع اللہ سے مشرّف ہوگئے اور جب تھا نہ بھون سے جانے لگے تو فرمایا ؎ نقشِ بتاں مٹایا دکھایا جمالِ حق آنکھوں کو آنکھیں دل کو میرے دل بنا دیا آہن کو سوزِ دل سے کیا نرم آپ نے نا آشنائے درد کو بسمل بنا دیا مجذوب درسے جاتا ہے دامن بھرے ہوئے صد شکر حق نے آپ کا سائل بنا دیا اور پھر کیا ہوا، شیخ العلماء بنے۔ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنا مصلح بنایا۔ایک عالم نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ میں نے خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب کو اپنا مصلح اور شیخ تجویز کیا ہے۔ حضرت نے جواب میں لکھا کہ بے مثل