صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
کامل نصیب ہوجاتی۔اس لیے اہلِ علم کو اپنے معلوم کو معمول بنانے کے لیے اہلِ عمل کی یعنی اﷲ والوں کی صحبت ضروری ہے ورنہ معلومات رہیں گی معمولات نہ رہیں گے اور اگر معمولات ہوں گے تو ان میں اخلاص نہ ہوگا۔ حضرت گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ اخلاص صرف اہل اﷲ کی صحبت سے ملتا ہے۔آدابِ مجالسِ اہل اﷲ ارشاد فرمایا کہ اﷲ نے زبان ایک دی ہے اور کان دو دیے ہیں۔ لہٰذا شیخ کی صحبت میں سنو زیادہ اور بولو کم۔ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ شروع میں سالک کو بالکل شیخ کی بات سننی چاہیے جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کو زبان نہیں دی جاتی لیکن سنتے سنتے پھر وہ بالکل ماں باپ جیسی گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ جو شیخ کے حضور میں سراپا کان بن جاتا ہے اور دل کے کان سے بھی سنتا ہے ایک دن پھر وہ شیخ کی طرح بولنے لگتا ہے اور شیخ کا دردِ دل بھی پا جاتا ہے۔دعوت اِلی اﷲ اور صحبتِ صالحین ایک شخص نے کہا کہ خانقاہوں میں ولیوں کا کام ہوتا ہے یہ نبیوں کا کام نہیں۔ میں نے کہا کہ تم غلط کہتے ہو کیوں کہ عالم نہیں ہو۔ شعبۂ تزکیۂ نفس کے لیے جو خانقاہیں بن رہی ہیں یہ کارِ نبوت کو انجام دے رہی ہیں۔ بتاؤ! آیت یُزَکِّیْہِمْ ولیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یا حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بارے میں نازل ہوئی؟ کہ میرا نبی تزکیہ کرتا ہے لہٰذا تزکیۂ نفس کے لیے خانقاہیں بنانا، پیری مریدی کرنا، اس شعبہ کو زندہ کرنا کارِ نبوت ہے۔ اس کو ولیوں کا کام کہنا بے وقوفی اور کم علمی ہے۔ عوام اور خواص سب کو تزکیہ کی ضرورت ہے۔اور خواص کی تربیت عوام کی تربیت سے افضل ہے کیوں کہ خواص کے ذریعے سے دین عوام میں پہنچ جاتا ہے۔اگر علماء اﷲ والے بن جائیں، صاحبِ نسبت درد بھرا دل ان کے سینے میں ہو تو بتاؤ کیا عالم ہوگا! اس عالِم سے پورا عالَم روشن ہوجائے گا۔ ورنہ جو روحانی امراض کے ساتھ دعوت دے گا تو اس کی دعوت الی اﷲ میں اثر نہ ہوگا۔