صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اور مضارع سے امر بنتا ہےاور ہر مشتق میں اپنے مصدر کی خاصیت ہوتی ہے۔ پسکُوْنُوْامیں بھی تجدّد واستمرار کی شان ہے۔ لہٰذا کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کامطلب یہ ہوا کہ حال میں بھی اہل اللہ کے ساتھ رہواورمستقبل میں بھی اہل اللہ کے ساتھ رہو، تمہاری زندگی کے ہر زمانے میں اہل اللہ کی معیت کااستمرار ہو۔ اس بات پر مولانا (قمر الزمان صاحب)کو اتنا وجد آیا کہ فرمایاکہ میں تو تمہاری تقریر سے مبہوت ہوگیا کہ ہمارے اکابر نے جو فرمایا کہ شیخِ اوّل کے انتقال کے بعد دوسرے شیخ ومربّی کو تلاش کرو اس کامقصد یہی ہے کہ اہل اللہ کی صحبت ِاستمرار حاصل رہے جو کہ کُوْنُوْاسے ثابت ہوگیا، لیکن آج تک اس طرف ہمارا ذہن نہیں گیا تھا۔ اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہمارے اکابر کے ارشادات قرآن وحدیث سے مقتبس ہوتے ہیں۔ جب احقر نے اپنے شیخ حضرت شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم( افسوس! حضرت اب دارِ آخرت کی طرف کوچ فرماگئے) سے مولانا قمر الزمان صاحب کا یہ قول نقل کیا جو انہوں نے فرمایا تھا کہ میں تو تمہاری تقریر سے مبہوت ہوگیا ،تو حضرتِ والا نے مزاحاً فرمایا کہ شکر کرو کہ مبہوت ہی ہوئے، اگر مبہوت کامیم ہٹادیتے تو کیا ہوجاتے؟ یہ ہیں ہمارے اکابر جو مزاح اور خوش طبعی بھی کرتے ہیں، جو عین مذاقِ سنت ہے۔ امرِ کُوْنُوْاسے معلوم ہوا کہ زندگی کے ہر دور میں صحبت ِ اہل اللہ ضروری ہے۔شیخ کے انتقال کے بعد دوسرے شیخ سے تعلق ضروری ہے لہٰذا حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اور سات سو برس پہلے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ شیخِ اول کے انتقال کے بعد دوسرازندہ شیخ تلاش کرو، کیوں کہ مردہ شیر سے بہتر زندہ بلی ہے۔ یہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کاارشاد ہے۔ چناں چہ شیخِ اوّل کے بعد جن لوگوں نے کسی دوسرے مربی کی صحبت اختیار نہیں کی، ان کے حالات میں زوال آگیا۔ آہستہ آہستہ وہ انوار وبرکات ختم ہوگئے، اور وہ مصلح تو کیا رہتے صالح بھی نہ رہے۔