صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
درخت کی نشوونما کے لیے ضروری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر دونوں حرارتوں میں سے کوئی ایک حرارت بھی درخت کو نہ ملے تو درخت سوکھ جاتا ہے۔ مثلاً اگر آفتاب کی خارجی حرارت ملے لیکن کھاد نہ دی جائے تو بھی درخت ہرا بھرا نہ ہو سکے گا کیوں کہ داخلی حرارت درخت کو نہیں مل رہی۔ اس طرح اگر چاہے کتنی ہی قیمتی کھاد ڈال دی جائے لیکن اس درخت کو آفتاب سے خارجی حرارت حاصل نہ ہو سکے تو بھی درخت پھل پھول نہیں سکتا۔اسی لیے جن کھیتوں کے کنارے درخت ہوتے ہیں ان درختوں کے سائے میں پودے پیدا نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو ان میں پھل نہیں آتا کیوں کہ خارجی حرارت ان پودوں کو نہیں مل رہی۔اسی طرح روح کی نشوونما کے لیے بھی دو حرارتوں کی ضرورت ہوتی ہے: ایک شیخ کی صحبت کی خارجی حرارت اور دوسری ذکر اﷲ اور اِجْتِنَاب عَنِ الْمَعَاصِیْ کی داخلی حرارت۔ جس شخص کو یہ دونوں حرارتیں نصیب ہوجائیں اس کی روح کا درخت اﷲ کی محبت سے سدا بہار ہوجاتا ہے۔صحبتِ شیخ اور نفس کی فنائیت فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ اپنی سمجھ اور عقل کو تیز کرنے سے اﷲ کا راستہ نہیں ملے گا ؎ جُز شکستہ می نہ گیرد فضل شاہ اپنے نفس کو توڑ دو۔ بالکل مٹ جاؤ کہ اے اﷲ! ہم کچھ نہیں ہیں۔ اتنے مٹ جاؤ کہ مٹنے کا بھی احساس نہ رہے۔ اسی کو فناء الفنا کہتے ہیں۔ جیسے کوئی سو رہا ہے اور اس کو احساس ہو کہ میں سو رہا ہوں تو یہ نہیں سو رہا ہے۔ نیند وہ ہے کہ غرق ہوجائے اور سونے کا احساس نہ رہے۔ اسی طرح مٹنا وہ ہے کہ یہ احساس بھی نہ رہے کہ میں نے اپنے کو مٹا دیا ہے۔فنائیتِ کاملہ یہ ہے کہ فنائیت کابھی احساس نہ رہے، اپنے کو کچھ نہ سمجھے، دل ٹوٹ جائے، اﷲ کا فضل ٹوٹے ہوئے دلوں پر برستا ہے اور یہ فنائیت شیخ کی صحبت اور اس کی تربیت سے نصیب ہوتی ہے۔ حکیم الامت نے فرمایا کہ اگر شیخ ڈانٹ بھی دے تو سمجھو کہ ہماری کیا شان ہے، کوئی شان نہیں ہے، ہماری شان اس سے بگڑی نہیں اور بن گئی۔ شیخ