صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
تمہاری کیا حقیقت تھی میاں آ ہؔ یہ سب امداد کے لطف و کرم تھے حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے تمام علمی و عملی کمالات کی نسبت اپنے شیخ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف کی۔مطلب یہ کہ مجددِ زمانہ، ڈیڑھ ہزار کتابوں کے مصنف، بڑے بڑے علماء کے شیخ نے اپنی نفی کر کے اپنے کمالات کو اپنے شیخ کی طرف منسوب کیا۔ یہی چیز انسان کو عجب و کبر سے اور اپنے کو بڑا سمجھنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ اور جس کا شیخ نہ ہو تو پھر وہ اپنی طرف نسبت کرتا ہے کہ میں نے یہ کیا، میں نے وہ کیا ۔اور جہاں ’’میں میں‘‘ ہو وہیں انسان ذلیل ہوجاتا ہے۔ یہی ’’میں‘‘ والی بیماری شیطان کو تھی جس نے ’’أَنَا‘‘ کہا تھا۔اسی انانیت کو ختم کرنے کے لیے بڑے بڑے علماء نے بھی اللہ والوں کو اپنا شیخ بنایا۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ بڑے بڑے علماء جو علم کے آفتاب اور ماہتاب تھے ان حضرات نے بھی اپنے نفس کو مٹانے کے لیے اور اپنی تربیت کے لیے مربی اور شیخ کا انتخاب کیا۔شیخِ کامل کے بغیر اصلاح نہیں ہوتی شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ(تبلیغی جماعت میں) لاکھوں چلّے لگا لو لیکن اصلاح نہیں ہو سکتی جب تک کسی شیخِ کامل سے تعلق نہیں ہوگا، جب تک کسی شیخِ کامل کے ساتھ نہیں رہو گے۔صحبتِ اہل اللہ کا انعام ایک شعر سناتا ہوں جو انگلینڈ میں موزوں ہوا ؎ مانا کہ میر گلشن جنت تو دور ہے عارف ہے دل میں خالق ِجنت لیے ہوئے اللہ والوں کے دل میں خالقِ جنت ہوتا ہے،اس لیے ان کے پاس بیٹھ کے دیکھ لو،تجارت دماغ سے نکل جائے گی،ان شاء اللہ۔بادشاہت کے تاج و تخت نیلام ہوتے