صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اور اس کے بعد اگر استطاعت ہوتو حج کا اجتماع فرض کردیا کہ حرمین شریفین میں حاضری دو مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا؎حج کی فرضیت کا ایک راز عشاق کی بین الاقوامی ملاقات بھی ہے کہ ہر ملک کے اولیاء اللہ کی زیارت نصیب ہوجائے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک تو کعبہ کااپنا نور ہے مگر کعبہ میں جو اولیاء اللہ ہوتے ہیں ان کانور ِباطن بھی اس فضا میں شامل ہوتا ہے۔ اس لیے کعبہ میں قدم رکھتے ہی نورِ ایمان بڑھ جاتا ہے۔مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ؎ کعبہ راہر دم تجلی می فزود کعبہ پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تجلی جوہر لحظہ اضافہ کے ساتھ ہورہی ہے جس سے کعبہ انوار سے معمور ہے اور دوسرے ؎ کیں ز اخلاصات ابراہیم بود حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اخلاص کانور بھی اس میں ہے۔جنت پر اہل اللہ کی فضیلت کی دلیل میں یہ عرض کررہاتھا کہ نعمت دینے والے کادرجہ نعمت سے زیادہ ہوتا ہے۔ پس حاملِ تجلیاتِ منعِم ہونے کے سبب اہل اللہ جنت سے افضل ہیں۔ اسی لیے علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَاشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ؎ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ذکر کو اللہ تعالیٰ نے مقدم کیوں کیا اور شکر کو مؤخر کیوں کیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ فَاِنَّ حَاصِلَ الذِّکْرِاَلْاِشْتِغَالُ بِالْمُنْعِمِ ذکر کی حالت میں آدمی نعمت دینے والے کے ساتھ مشتغل رہتا ہے۔ اور علامہ آلوسی نے بابِ ا فتعال استعمال کیا کہ ارادہ کر کے وہ اللہ کو یاد کرتے ہیں۔ ایک شخص نے حکیم الامت کو لکھا کہ ایسا وظیفہ بتایئے کہ ہر وقت بلا ارادہ زبان سے اللہ اللہ نکلتا رہے۔ فرمایا کہ توبہ کرو اس بات سے اس لیے کہ بے ارادہ زبان سے اللہ نکلنے کامقصد یہ ہے کہ آپ مجبور ہوگئے، اور ثواب ------------------------------