صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود نفی فرمادی کہ ہمارا کوئی ولی نہیں مگر متقی بندے۔ یعنی جو گناہوں سے بچتے ہیں، جو اللہ والوں کی صحبت میں رہتے ہیں اور اللہ والا بننا چاہتے ہیں لیکن نفس سے مغلوب ہوکر گناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے لیکن پھر توبہ کرتے ہیں ایک دن ان کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کی برکت سے جذب فرمالیتے ہیں۔ ان کو بھی جذب کی تجلی مل جاتی ہے۔ لیکن جو لوگ اللہ کا ارادہ ہی نہیں کرتے اور ٹھان رکھا ہے کہ گناہ نہیں چھوڑ نا ہے اُن پر اللہ والوں کے جذب کی لہریں اثر انداز نہیں ہوتیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جس کو بجلی کاکرنٹ لگا ہو تو جو اس کے پاس جاتا ہے اس کو بھی کرنٹ لگ جاتا ہے لیکن جو کرنٹ سے بچنا چاہتے ہیں وہ لکڑی کی کھڑاؤں پہن کر جاتے ہیں جس سے بجلی ان کو نہیں کھینچتی۔ اسی طرح جو گناہوں کی لکڑی پر پیر رکھے ہوئے ہیں اللہ والوں کی جذب کی بجلی ان کو نہیں لگتی اور وہ محروم رہتے ہیں۔دنیا کی کرنٹ ہلاک کرتی ہےاور اللہ کے جذب کی کرنٹ حیات دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مجذوب حیاتِ جاوداں پاجاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی محبت کہاں سے حاصل ہوتی ہے عشقِ مجازی میں زندگی ضایع ہوتی ہے کیوں کہ محبوبانِ مجازی سب فانی ہیں۔محبوبِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے، اس کے علاوہ کوئی محبت کے قابل ہی نہیں۔ یاجو لوگ محبت کے قابل ہیں وہ اللہ والے ہیں۔ کیوں کہ اللہ کی محبت ان سے ملتی ہے اس لیے ان کی خدمت کی جاتی ہے۔ بغیر اللہ والوں کی محبت کے اللہ تعالیٰ کاملنا ناممکن ہے۔ بزرگوں کا اس پر اجماع ہے۔ صوفیا کا بھی اور علماء کا بھی، کہ اللہ والوں کی صحبت ہی سے نفس فنا ہوتا ہے چاہے جلدی یادیر سے، یہ اپنی اپنی صلاحیت پر ہے۔ سوکھی لکڑی جلدی جل جاتی ہے اور گیلی لکڑی سوں سوں کرتی ہے اور بہت دیر کے بعد اُس میں آگ لگتی ہے۔ مگر اللہ والوں کی صحبت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اگر کوئی بزرگ بہت مشہور ہے اور طالب پوچھتا ہے کہ یہ کس کے صحبت یافتہ ہیں؟ لیکن اگر یہ پتا چلے کہ کسی کے صحبت یافتہ نہیں ہیں تو آدمی کااعتقاد ختم ہوجاتا ہےکیوں کہ کسی اللہ والے کی صحبت کے بغیر اللہ نہیں ملتا۔ اللہ والوں کی محبت اللہ ہی کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اور یہی محبت قائم رہتی ہے، دنیاوی محبت قائم نہیں رہتی۔