صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
آیتِ قرآنیہکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ کامطلب اللہ تعالیٰ نےکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَفرمایا ہے ،لہٰذا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ قیامت تک اہل اللہ کو پیدا فرماتے رہیں، کیوں کہ انہوں نے اہل اللہ کی صحبت میں بیٹھنے کاحکم دیا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی زمانے میں قرآنِ پاک کی تعلیمات پرعمل محال ہوجائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حکم نازل کیا کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرکے میرے دوست بن جاؤ۔اورا پنی غلامی کے سرپر تاجِ ولایت رکھ لو۔ ابھی تو خالی مؤمن ہو لیکن ولی نہیں ہوسکتے جب تک تقویٰ اختیار نہیں کروگے۔ لیکن تقویٰ کہاں سے ملے گا؟ فرماتے ہیںکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ تقویٰ متقین کی صحبت سے ملے گا ۔ جس کی تفسیر علامہ آلوسی نے کی ہےخَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْامِثْلَھُمْ؎ یعنی اتنا زیادہ ساتھ رہو اللہ والوں کے کہ ان ہی جیسے ہوجاؤ۔جیسے ان کی اشکبار آنکھیں ہیں،ہمیں بھی وہ آنسو مل جائیں۔ جیسے درد بھر ے دل سے ان کے سجدے ہوتے ہیں، ہم کو بھی نصیب ہوجائیں۔ جیسے وہ راتوں کو اُٹھ کر اللہ تعالیٰ سے مناجات کرتے ہیں، ہم کو بھی وہی توفیق مل جائے۔ وہ ساری نعمتیں ہم کو بھی مل جائیں جو اللہ والوں کو نصیب ہیں۔ یہ معنیٰ ہیںکُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَکےکہ اتنا رہو ان کی صحبت میں کہ ان جیسے ہی بن جاؤ۔ اسی لیے حکیم الامت نے فرمایا کہ کم از کم چالیس دن تسلسل کے ساتھ اللہ والوں کی صحبت میں رہے۔ پہلے زمانے میں کم سے کم دو سال تک لوگ اللہ والوں کی خدمت میں رہتے تھے۔پھر حاجی امداد اللہ صاحب نے یہ مدت چھ مہینے کردی، اور پھر حکیم الامت نے ہمارے ضعف وقلت ِطلب کو دیکھ کر چالیس دن کی مدت کردی کہ کم سے کم چالیس دن شیخ کے پاس رہے۔کتاب اللہ اور صحبت ِنبی کے متعلق ایک علم ِعظیم اب دوباتیں اور عرض کرنا چاہتاہوں کہ جس وقتاِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ ؎ نازل ہوئی ؎ ------------------------------