صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
سکوتِ شیخ کے نافع ہونے کی مثال ارشاد فرمایا کہ شیخ اگر خاموش بھی ہو تو بھی اس کے پاس بیٹھے رہو،یہ نہ سمجھو کہ وقت ضایع ہو رہا ہے،نفع نہیں ہو رہا ہے۔ شیخ خاموش بھی ہوگا تو بھی نفع ہوگا۔ اس کی ایک مثال اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ ایئر کنڈیشن تقریر نہیں کر رہا ہے مگر ٹھنڈک مل رہی ہے۔ اپنے شیخ کے قلب کو ایئر کنڈیشن سمجھو، خاص کر وہ مشایخ جو اپنے جسم کی کار میں حواسِ خمسہ کی کھڑکیوں پر تقویٰ کا شیشہ بھی چڑھا کر رکھتے ہیں اور قلب میں ذکر کا ایئر کنڈیشن بھی چل رہا ہے۔ لہٰذا ان کے پاس بیٹھنے والوں کو کتنی ٹھنڈک، کتنا اطمینان قلب ملے گا؟ جس کار کے سب شیشے بند ہیں اس کار کے ایئر کنڈیشن میں کتنی ٹھنڈک ہوگی؟ اور جس کار کے شیشے کھلے ہوں اس کے ائیر کنڈیشن میں ایسی ٹھنڈک نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا جو شخص تقویٰ سے نہ رہتا ہو، نگاہ کی حفاظت نہ کرتا ہو، چاہے ذکر کرتا ہو تو اس کے پاس بیٹھنے سے ذکر کی پوری ٹھنڈک نہیں ملے گی کیوں کہ ذکر سے اﷲ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور نافرمانی سے اﷲ کا غضب نازل ہوتا ہے۔ جہاں دو متضاد صفات کا ظہور ہو رہا ہے وہاں سوچ لو کہ کیا حال ہوگا؟ خود فیصلہ کر لو۔ نہ خود اس کے قلب کو ذکر کی پوری ٹھنڈک اور اطمینانِ کامل نصیب ہوگا نہ اس کے پاس بیٹھنے والوں کو نصیب ہوگا اور جو شیخ نظر کی حفاظت کرتا ہے،تقویٰ سے رہتا ہے ہر گناہ سے بچتا ہے اس کے قلب کا ایئر کنڈیشن کتنا قوی ہوگا؟ اس کے پاس بیٹھنے سے اطمینانِ کامل نصیب ہوگا چاہے وہ کوئی تقریر نہ کرے۔ جس طرح ایئر کنڈیشن تقریر نہیں کرتا لیکن سب کو ٹھنڈک نصیب ہوجاتی ہے۔ لہٰذا شیخ کی خاموشی کو غیر مفید نہ سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ جب ذکر اﷲ میں ٹھنڈک اور اطمینانِ قلب کی خاصیت ہے اَلَا بِذِکْرِاللہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ؎ تو جو ذاکر ہے اس کے قلب میں یہ خاصیت نہ ہوگی؟ خصوصاً وہ شیخ کہ گناہ کی حرام لذتوں سے بچنے سے جس کے قلب میں صرف اﷲ ہو۔ جس کے قلب میں صرف اﷲ کے قرب کا عالم ہو اس کے قلب کے عالم کا کیا عالم ہوگا؟ اس کو کوئی سمجھ بھی نہیں سکتا۔ اور اس کا نفع متعدی اتنا قوی ہوگا کہ ایک عالم اس سے سیراب ہوگا۔ ------------------------------