صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اعمال کی ترقی اور قبولیت احسان پر موقوف ہے کمیت پر موقوف نہیں۔ جیسے جہاز میں لوہا کم ہوتا ہے اس کا حجم بھی کم ہوتا ہے۔ اور ریل کا لوہا اور حجم زیادہ ہوتا ہے لیکن جہاز چھوٹا ہو چاہے ڈکوٹہ ہی ہو لیکن اپنی اسٹیم کی کیفیت کی وجہ سے یہاں سے چند گھنٹوں میں جدہ پہنچ جائے گاجب کہ ریل کو پہنچنے میں کئی دن لگ جائیں گے۔ لہٰذا اپنے بزرگوں کی خدمت میں ہم جائیں تو یہ نیت کریں کہ کیفیت کی اسٹیم لینے جارہے ہیں، کیوں کہ اگر علم کی نیت کی تو ممکن ہے وہاں ایک علم کی بار بار تکرار ہو۔ اس تکرار سے بعضے نادان گھبراتے ہیں کہ میاں! وہاں تو ایک ہی بات کو بار بار بیان کرتے ہیں۔ ایسا سمجھنا سخت نادانی ہے۔ تکرارِ علم قرآنِ پاک سے بھی ثابت ہے۔ ایک ہی آیت کتنی جگہ نازل ہوئی ہے۔ تکرارِ علم دلیلِ شفقت ہے۔ باپ اپنے بیٹوں سے بار بار کہتا ہے کہ بیٹا! اس گلی سے نہ جانا وہاں غلط قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ پھر دو تین دن کے بعد یہی کہتا ہے۔ بار بار ایک ہی آیت کا نزول حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت کی دلیل ہے۔ ایسے ہی شیخ اور مربی پر رحمت کا غلبہ ہوتا ہے تو بار بار کہتا ہے کہ دیکھو! نظر بچانا۔نفس پر غالب آنے کا طریقہ ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا تھا کہ طاقت الگ چیز ہے اور فن الگ چیز ہے۔ ایک شخص تین مَن کا نہایت طاقتور ہے لیکن داؤ پیچ نہیں جانتا تو کشتی میں اس کو کم طاقت والاوہ شخص گرا دے گا جو داؤ پیچ جانتا ہے۔ چناں چہ حضرت نے فرمایا کہ میرے استاد جن سے میں نے دس سال لاٹھی چلانا سیکھی اتنے ماہر تھے کہ ان پر ایک دشمن نے تلوار سے حملہ کیا اور یہ قلم سے کچھ لکھ رہے تھے کہ انہوں نے فوراً بجلی کی طرح پینترا بدلا اور قلم اس کی گردن میں ایسا مارا کہ وہ مر گیا۔ تلوار والے کو قلم والے نے مار دیا۔اسی کو فن کہتے ہیں اور یہ سیکھنا پڑتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اسی طرح نفس کو دبانے کا فن اﷲ والوں سے سیکھا جاتا ہے ورنہ لاکھ طاقت آزمائی کرو گے نفس تمہیں دبائے رہے گا۔ اﷲ والے گُر سکھاتے ہیں کہ نفس دشمن کو کس طرح زیر کیا جاتا ہے۔ اہل اﷲ سے جو یہ فن نہیں سیکھتا نفس اس کو ہمیشہ پٹکتا رہتا ہے اور وہ نفس پر کبھی غالب نہیں آسکتا۔