صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
تشنگاں گر آب جوینداز جہاں آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر پیاسے پانی کو تلاش کرتے ہیں تو پانی بھی اپنے پیاسوں کو تلاش کرتا ہے۔اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کا عہد عالمِ ازل میں اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ؎ فرما کر ہم سب کی روحوں میں اللہ نے اپنی محبت کی چوٹ لگا دی تھی۔اپنی ربوبیت کی تجلی کا مشاہدہ کرا کر ہم سے اقرار لیا تھا۔ہم نے بَلٰی کہا تھا کہ بے شک! آپ ہمارے رب ہیں اور یہاں اس عالم میں آکر بھی وہ چوٹ موجود ہےمگر اس چوٹ کو ابھارنے کے لیے ایک مخصوص ہوا چاہیے جیسے پہلوان جب اکھاڑے میں چوٹ کھاتا ہے تو ہر ہوا اس چوٹ کو نہیں ابھار سکتی۔ پورب یعنی مشرق سے جو ہوا چلتی ہے جسے پوربی ہوا کہتے ہیں اس سے پرانی چوٹیں ابھر آتی ہیں۔ پھر پہلوان کہتا ہے اُف! اکھاڑے میں استاد نے گردن پر جو گھونسا مارا تھا وہ آج درد کر رہا ہے۔آج پوربی ہوا چل رہی ہے۔اسی طرح اللہ والوں کے قرب کی ہوائیں، اللہ والوں کی آغوشِ محبت کی ہوائیں ہماری روح کی اُس چوٹ کو ابھار دیتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے عالمِ ارواح میں لگائی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحبتِ اہل اللہ سے آدمی کے دل میں نور اور اللہ کی محبت کا درد بڑھتا جاتا ہےاور دنیا کی محبت گھٹتی جاتی ہے۔ دنیا اسے مردار نظر آنے لگتی ہے۔ دنیا کی صحیح حقیقت کھلنے لگتی ہے۔آنکھوں کا پانی اور موتیا دور ہوتا جاتا ہےاور آنکھیں بنتی جاتی ہیں۔آدمی روز بروز دل کی بصیرت سے دیکھتا ہے کہ میں پہلے کیا تھا اور اب کہاں سے کہاں پہنچ رہا ہوں ؎ وہ ان کارفتہ رفتہ بندۂ بے دام ہوتا ہے محبت کے اسیروں کایہی انجام ہوتا ہے ------------------------------