صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
نظر سے نہ دیکھے اگرچہ اپنی عبادت کی مقدار زیادہ پائے، اور جو اعتراض کرے گا اپنے شیخ پر کبھی فلاح نہیں پائے گا۔ فِیْہِ تَعْلِیْمٌ لِّلْمُرِیْدِ بِاَنْ لَّا یَنْظُرَ اِلَی الشَّیْخِ بِعَیْنِ الْاِحْتِقَارِ وَ اِنْ رَاَی عِبَادَتَہٗ قَلِیْلَۃً فَلْیَظْھَرْ عُذْرَہٗ، وَلْیَلُمْ نَفْسَہٗ اِنْ جَرٰی فِیْھَا اِنْکَارٌ عَلٰی شَیْخِہٖ، لِاَنَّ مَنِ اعْتَرَضَ عَلٰی شَیْخٍ لَمْ یُفْلِحْ اَبَدًا؎ شیخ ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ تشریح حدیث کَاَنَّہُمْ تَقَالُّوْہَا اِلٰی فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ کے ذیل میں رقم فرمائی ہے۔ عبارتِ مذکورہ سے اہل اﷲ کی صحبت کے حقوق کا اہتمام ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا ہے۔ارشادِ رومی خُم کہ از دریا درو راہے شود پیشِ او جیحو نہا زانو زند جس مٹکے کو سمندر سے تعلق خفیہ حاصل ہو اس کے سامنے بڑے بڑے دریا شاگرد ہوجاتے ہیں کیوں کہ اس مٹکے کا پانی خشک نہ ہوگا اور دریا خشک ہوسکتے ہیں۔ارشادِ حکیم الامت تھانوی فرمایا کہ وہ عالم جو اہل اﷲ کی صحبت میں تکمیلِ سلوک کرکے صاحبِ نسبت ہوجاتا ہے اور عالمِ ظاہر غیر صاحبِ نسبت کے علوم میں فرق کی ایسی مثال ہے جیسے ایک حوض کا پانی ہے جو خشک ہوجاتا ہے اور ایک اس چشمہ کا پانی جس کے اندر نیچے تک گہرا کھودا گیا اور سَوتا نکل آیا تو اس کا پانی کبھی ختم نہ ہوگا۔ پس یہ دوسری مثال عالِم صاحبِ نسبت کے علم کی مثال ہے اور اوّل مثال عالمِ ظاہر کے علم کی ہے۔ ------------------------------