صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
محض کتابی علم کے ناکافی ہونے کی مثال جیسے تیرنے کا فن مع تراکیب کتابوں میں لکھا ہے اوراس کے سب نقشے بھی ہوتے ہیں کہ یوں ہاتھ مارو، یوں لیٹو، یوں تیرو، لیکن اگرمحض کتاب لے کردریا میں چلے جاؤ تو کتاب بھی ڈوبے گی اور خود بھی ڈوبو گے، اور اگر تیرنے والوں کے پاس کچھ دن رہ لوتو تیرنا آجائے گا کتاب کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ میں نے بنگلہ دیش کے دیہاتوں میں دیکھا کہ پانچ چھ سال کا بچہ پورادریا تیر کر پار کر لیتا ہے کیوں کہ بنگلہ دیشی کہتے ہیں کہ ہم بچے کو پیدا ہوتے ہی پانی میں ڈال دیتے ہیں۔یہ صحبت کا اثر ہے۔تو اہل اﷲ کےصحبت یافتہ لوگ ولی اﷲ ہو گئے اورغیر صحبت یافتہ عالم ولی اﷲ نہیں ہوئے۔ جنہوں نےصحبت اختیار نہیں کی وہ عالم ہو کر بھی ولی اﷲ نہیں ہوئے، اور جو عالم نہیں ہیں وہ بقدرِ ضرورت علمِ دین سیکھ کر اﷲ والوں کی صحبت سے ولی اﷲ ہو گئے۔ دیکھو! حضرت میاں جی نور محمدرحمۃ اﷲ علیہ عالم نہیں تھے حافظ تھے۔میاں جی ان کا لقب تھا، تو حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے دعا کی کہ اے اﷲ!مجھے کوئی ولی اﷲ عطا فرما تاکہ میں اس سے مرید ہوجاؤں تو خواب میں دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اورحضرت میاں جی نورمحمدجھنجانوی تشریف رکھتے ہیں تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حاجی امداد اﷲ صاحب کا ہاتھ پکڑا اورحضرت میاں جی کے ہاتھ پررکھ دیا کہ تم ان سے مرید ہوجاؤ۔ ان کی کبھی تکبیرِ اولیٰ بھی نہیں چھوٹی تھی۔درسِ نظامی کے بانی کا عجیب واقعہ ارشاد فرمایا کہ آج کل درسِ نظامی پڑھنے کو کافی سمجھتے ہیں اور اہل اللہ کی صحبت کو ضروری نہیں سمجھتے۔ وہ اس واقعہ سے سبق لیں کہ درسِ نظامی کے بانی ملّا نظام الدین جنہوں نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کی۔ان کو بادشاہ عالمگیررحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ عالمگیری لکھنے کے لیے پانچ سو ۵۰۰ علماء کا افسر مقرر کیا تھا، پانچ سو علماء ان کے ماتحت تھے لیکن وہ خود جا کر بیعت ہوئے شاہ عبد الرزاق صاحب بانسوی رحمۃ اللہ علیہ سے، جن کا قرآن شریف بھی ختم نہیں ہوا تھا لیکن ان کو علمِ لدنی حاصل تھا۔ یہ واقعہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی