صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
صحبت ان کو حاصل ہے۔ یعنی مرد کا مسئلہ تو یہ ہے کہ وہ نبی کو دیکھ لے تو صحابی ہو گیا، اگر اندھا ہے تو نبی اس کو دیکھ لے تو بھی صحابی ہوگیا۔حالاں کہ اس نے خود نہیں دیکھا۔جیسے حضرت عبداللہ بن امِ مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہاں دیکھا تھا، نابینا تھے۔لیکن حالتِ ایمان میں اگر خود نہ بھی دیکھ سکے لیکن نبی اس کو دیکھ لے تو وہ بھی صحابی ہوجاتا ہے۔ عورتیں اگرچہ اپنے شیخ کو نہ دیکھیں ،کیوں کہ ان کے لیے پردہ کا حکم ہے،لیکن شیخ کی آواز سن لیں، اور اس مجلس میں ان کا موجود رہنا یہی ان کا صحبت یافتہ ہوجانا ہے۔ اس لیے وہ بھی صحابیات ہیں جنہوں نے حالتِ ایمان میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی بغیر دیکھے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ِنبوت کی سماعت کی، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد ِنبوت پایا اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سن لی۔نہ نبی نے ان کو دیکھا نہ انہوں نے نبی کو دیکھا، لیکن وہ صحابیات ہیں یا نہیں؟ تو یہ صحبت کا طریقہ جو ہمارے اکابر کا چلا آرہا ہےیہ میرا سفر ری یونین اور مولانا داؤد کا یہ سب انتظام کرنا ،خانقاہ وغیرہ کا سب کا حاصل صحبت ہے کہ اپنے بزرگوں کی صحبت مل جائے، اکابر کی صحبت مل جائے، اگر اکابر نہ ہوں تو ان کے صحبت یافتہ کی صحبت بھی کافی ہے۔انسانوں کو شیطان کے دو سبق پھر مولانا مسیح اللہ خان صاحب نے بڑی عمدہ بات فرمائی کہ شیطان نے دو سبق دے دیے، شیطان مردود تو ہوا لیکن قیامت تک کے انسانوں کو دو سبق دے گیا ۔ اور یہ سبق بھی قصداً نہیں دیے، ورنہ جو خود سراپا شر ہو اس سے خیر کی توقع کہاں مگر اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ تکوینی طور پر اس کا شر انسانوں کے لیے خیر بن جائے۔جیسے کوئی آدمی سنکھیا کھا کر مرجائے تو دوسروں کو سبق مل جاتا ہے کہ بھئی! ہم سنکھیا نہ کھائیں گے۔حالاں کہ کھایااس نے، مراوہ، لیکن جب وہ سنکھیا سے مرگیا تو سبق ملا کہ سنکھیا کھانا اچھا نہیں ہے، بُرا ہے، اسی طرح شیطان خود تو مردود ہوا لیکن اس سے انسانوں کو دو سبق مل گئے:ایک تو عبادت کرنے والوں کو سبق ملا کہ شیطان بہ زبانِ حال کہہ رہا ہے کہ دیکھو! عبادت کا نشہ اگر تمہیں آگیا تو مجھ سے زیادہ عبادت تمہاری نہیں ہوسکتی۔