صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
جی بھر کر دیکھ لو یہ جمالِ جہاں فروز پھر یہ جمالِ نور دکھایا نہ جائے گا چاہا خدا نے تو تیری محفل کا ہر چراغ جلتا رہے گا یوں ہی بجھایا نہ جائے گااولیاء اللہ کی مثال حکیم الامت نے فرمایاکہ ایک چیونٹی نے درخواست کی کہ اے خدا! میں کعبہ حاضر ہونا چاہتی ہوں مگر میری رفتار اور میری کمزوریوں سے آپ باخبر ہیں۔آپ ہی نے تو مجھے چیونٹی بنایا ہے بازِ شاہی بھی نہیں بنایا اور کبوتر بھی نہیں بنایا کہ میں اُڑ کر پہنچ جاؤں ۔ آواز آئی کہ ایک کبوتر کعبہ شریف سے بھیج رہا ہوں، وہ کبوترِ حرم ہے، اُس کو عام کبوتر مت سمجھنا۔ بس اس کے قدموں سے لپٹ جانا۔جب وہ حرم پہنچے گا تو تم بھی اس کے قدموں سے لپٹے رہنے کی برکت سے حرم پہنچ جاؤگی۔ تو اولیاء اللہ بھی کبوتر ِحرم ہوتے ہیں اگرچہ عجم میں ہوں مگر باعتبارِ قلب اور روح کے وہ کبوتر ِحرم ہوتے ہیں۔جسم اُن کا فرش پر ہوگا مگر اپنے قلب و جان سے وہ عرشِ اعظم پر رہتے ہیں اور صاحبِ عرش اعظم سے رابطہ رکھتے ہیں۔اگرچہ اُن کا جسم یہیں آپ کے ساتھ ہوگا۔ اب کوئی کہے گاکہ اپنا جسم اُڑا کے دکھاؤ، اگر ان کے جسم اُڑ جاتے تو آپ کا جسم دنیا ہی میں دھرا رہتا۔صحبت ِ شیخ کی کرامت ایک مرتبہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ مثنوی پڑھا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ مولانا رومی شمس الدین تبریزی پر کیوں فدا ہوگئے؟ حاجی صاحب نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اپنے پیر شمس الدین تبریزی پر اس لیے عاشق ہوئے کہ سو برس کے تہجد اور ذکر اور فکر سے جس مقام پر پہنچتے شمس الدین تبریزی کی صحبت کی برکت سے چند ساعت میں اس مقام پر فائز ہوگئے۔ چناں چہ جس کی کھائی اس کی گائی۔جب آدمی کو اللہ والوں سے کچھ ملتا ہے تو ضرور اس کی تعریف کرتا ہے اور دنیا