صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
سے فرمایا کہ خدا کی قسم! یہ نادان لوگ ہیں۔ واللہ! ان سارے علماء سے پوچھ لوکہ حاجی صاحب کاہاتھ پکڑنے سے پہلے ان کاکیا حال تھا؟حاجی صاحب کے فیضانِ صحبت سے پہلے ہمارے علوم تھے، لیکن بے جان تھے۔ ہمارے اندر ایمان تھا لیکن ایمانِ اعتقادی تھا، ایمانِ استدلالی تھا، ایمانِ عقلی تھا، معیّتِ عامّہ حاصل تھی وَھُوَ مَعَکُمْ کی معیّتِ اعتقادیہ حاصل تھی۔لیکن حاجی صاحب کاجب ہاتھ پکڑا اور ذکر اللہ شروع کیا تو دل کے دروازے کھل گئے۔ اللہ کانور قلب میں داخل ہوا۔ایمانِ اعتقادی سے بڑھ کر ایمانِ حالی عطا ہوا۔ معیّتِ عامّہ بڑھ کر معیت ِخاصّہ سے تبدیل ہوئی۔ وَھُوَ مَعَکُمْ کی جومعیّتِ اعتقادیہ عقلیہ حاصل تھی وہ معیّت ِذوقیہ حالیہ وجدانیہ سے تبدیل ہوگئی۔یہاں تک کہ قلب محسوس کرنے لگا کہ ہمارے دل میں اللہ ہے۔ خواجہ صاحب نے جون پور میں حضرت حکیم الامت سے پوچھا تھا کہ جب کوئی اللہ والا ہوجاتا ہے اور نسبت عطا ہوجاتی ہے تو کیا اسے پتا چل جاتا ہے کہ میرے قلب میں اللہ آگیا اور میں صاحبِ نسبت ہوگیا؟حضرت نے فرمایا کہ خواجہ صاحب! جب آپ بالغ ہوئے تھے تو کیا آپ کو پتا نہیں چلاتھا کہ میں بالغ ہوگیا ہوں یاآپ کو دوستوں سے پوچھنا پڑا تھا کہ یارو! بتانا کہ عزیز الحسن بالغ ہوایانہیں ؟ بس! کیا عجیب مثال دی۔فرمایا کہ ایسے ہی ایک مدت اہل اللہ کے فیضانِ صحبت سے ، ذکر وفکر سے،گناہوں سے بچنے سے جب روح بالغ ہوتی ہے یعنی اللہ والی ہوجاتی ہے تو اس کے اندر کچھ جان ہی اور آجاتی ہے۔ درد بھرا دل عطا ہوجاتا ہے۔ اور آدمی محسوس کرلیتا ہے کہ مجھے حق تعالیٰ کی معیت ِ خاصہ عطا ہوگئی۔اللہ کی محبت کیسے پیدا ہو؟ خواجہ عزیز الحسن صاحب مجذوب فرماتے ہیں ؎ نکالو یاد حسینوں کی دل سے اے مجذوب خدا کا گھر پئے عشقِ بُتا ں نہیں ہوتا دل خدا کاگھر ہے۔یہ بُت خانہ نہیں ہے کہ اس میں بتوں کو بسالو، اگر دل میں غیر اللہ کی