صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
لیکن شیخ اپنے کو ایسا سمجھے، طالبین نہ سمجھیں کہ میرا شیخ بھوسی ہے ورنہ مرید پُھوسی ہوجائے گا، پُھوسی کہتے ہیں بلی کو یعنی شیخ کو حقیر سمجھنے والا محروم ہوجائے گا۔ حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ شیخ تو یہی سمجھے کہ میں کچھ نہیں ہوں، مگر مریدین سمجھیں کہ روئے زمین پر میرے لیے ان سے بہتر کوئی مربی نہیں۔یہ عقیدہ لازم ہے ورنہ فائدہ نہیں ہوگا۔ اور مولانا گنگوہی نے اس کو سکھادیا۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر ایک مجلس ہو اور اس میں ہمارے پیر حاجی امداد اللہ صاحب تشریف فرما ہوں اور اسی مجلس میں امام غزالی، جنید بغدادی، بابا فرید الدین عطار، شیخ عبد القادر جیلانی ہوں تو میں کسی کی طرف رخ نہیں کروں گا۔اپنے حاجی صاحب کو دیکھتا رہوں گا۔ مرید کو یہ محبت ہونی چاہیے۔آج کل تو ایسا ہے کہ اولیاء اللہ تو درکناردنیادار کو دیکھ کر شیخ کو بھول جاتے ہیں۔ ایک صاحب اپنے شیخ سے ملنے آئے تھے۔ اتنے میں ایک نواب صاحب آگئے تو شیخ صاحب کو بھول گئے۔ بس نواب صاحب سے باتیں کر رہے ہیں۔ شیخ صاحب ہنسے اور مجھ سے کہا اس مخلص کو دیکھا؟ آیا تھا ہم سے ملنےاور ایک نواب آگیا تو اب نواب کی طرف منہ کیے ہوئے ہے ہماری طرف پیٹھ کیے ہوئے بیٹھا ہے۔ اگر شیخ سے صحیح عقیدت اور محبت ہے تو چاہے بادشاہ اور وزیر اعظم بھی آجائے تو اس کو خاطر میں بھی نہیں لائے گاکہ ہمارا بادشاہ تو ہمارا شیخ ہے۔ اللہ کا شکر ہے جب میرے شیخ پاکستان آتے ہیں تو میں اعلان کردیتا ہوں کہ میرا بادشاہ، میرا وزیر اعظم آرہا ہے۔سب کام بند کرو اور شیخ کے استقبال اور خدمت کی فکر کرو۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ اللہ کا راستہ بہت مشکل ہے مگر اے حکیم اختر! سن لے کہ اگر سچا اللہ والا شیخ مل جائے تو اللہ کا راستہ صرف آسان نہیں ہوتا مزے دار ہوجاتا ہے۔شیخ بنانا کیوں ضروری ہے حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا تخلص ہی آہ رکھا تھا۔ حضرت کا ایک شعر ہے۔