صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اللہ کی محبت کے حصول کا واحد راستہ اہل اللہ کی محبت آپ بھی نفس سے کہہ دیں کہ اے نفس! اگر تو اللہ کی نافرمانی سے باز نہیں آتا تو میں تیری سرکوبی کروں گا، تجھے قید کر دوں گا،مگر یہ ہمت وقوت آئے گی کیسے؟ گناہوں سے بچنے کے لیے جان دینے کی ہمت کیسے آئے گی؟ اور جان سے زیادہ اہل وعیال سے زیادہ اور شدید پیاس میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہمارے دل میں کیسے آئے گی؟ جب کہ یہ محبت مطلوب بھی ہے۔سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے کتنی محبت مانگی ہے؟ حدیث شریف میں ہے: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَّفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اے اللہ! مجھے اپنی اتنی محبت دے دیں کہ آپ مجھے میری جان اور میرے اہل و عیال سے زیادہ پیارے ہوں اور پیاس کی شدّت میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ پیارے ہوں۔ مگر یہ محبت ملے گی کیسے؟ اس کا نسخہ بھی اسی حدیث کے پہلے جز میں موجود ہے: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْاََلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ؎ اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور تیرے عاشقوں کی محبت مانگتا ہوں اور اس عمل کی محبت مانگتا ہوں جو آپ کی محبت کا باعث ہو۔ظالم ہے وہ مُلاّجو اہل اللہ سے مستغنی ہوتا ہے۔ جو مولوی خدا کے عاشقوں سے اعراض کرتا ہے، استغنا کرتا ہے وہ نبی کی دعا کی رُو سے اپنا فیصلہ کر لے کہ نبیوں کا سردار خدا سے خدا کے عاشقوں کی محبت مانگ رہا ہے اور یہ ظالم ’’شمسِ بازغہ‘‘اور ’’صَدرا‘‘پڑھا کر اپنے آپ کو اہل اللہ سے مستغنی سمجھ رہا ہے۔ ایسے مُلاّ کے لیے میرا شعر ہے ؎ کہاں پاؤ گے صدرا، بازغہ میں نہاں جو غم ہے دل کے حاشیہ میں اور اللہ کی محبت کی یہ دولت کیسے ملتی ہے ؎ ------------------------------