صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
جیسے نہ ہوجاؤ۔ تمہارا مربی جیسا اللہ والا ہے ویسے ہی تم بھی ہوجاؤ۔ اتنے دن ساتھ رہو کہ تم بھی اس مقام پر پہنچ جاؤ جس پر تمہارا شیخ ہے۔اس کی وضاحت اختر کرتا ہے کہ ایک درخت ہے جس کاتنہ کمزور ہے تو اس کے ساتھ ایک ڈنڈا باندھ دیتے ہیں اور ڈنڈے کو زمین میں گاڑ دیتے ہیں، تو ڈنڈا کھڑا ہوتا ہے۔ جو مسٹنڈا بھی ہوتا ہے، مضبوط بھی ہوتا ہے یعنی اس لمبے درخت کو جو سیدھا جارہا ہے اس ڈنڈے کے سہارے سے وہ قائم رہتا ہے اور بڑھتا رہتا ہےیہاں تک کہ جب اس کاتنہ مضبوط ہوگیا تو اب ڈنڈا ہٹالیتے ہیں۔ اس درخت کے ذمہ صرف ڈنڈے کا شکریہ باقی رہتا ہے ۔ اسی طرح جب آدمی صاحب ِنسبت ہوجاتا ہے تو شیخ کی پھر ضرورت نہیں رہتی مگر شیخ کاشکریہ ہمیشہ ادا کرنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے شیخ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔یہ مثال بھی پہلی دفعہ بیان ہوئی ہے کہ جو درخت کمزور ہوتے ہیں اگر ان کو اکیلا چھوڑ دو تو جب ہوا چلے گی تو وہ زمین پر گرجائیں گے۔آپ نے صبح جاکر دیکھا تو زمین پر پڑے ہوئے ہیں۔ تو آپ کہتے ہیں کہ بھائی! ابھی تو سجدہ کاحکم نہیں تھا ابھی تو قیام کرنا چاہیے تھا۔ لہٰذا آپ نے لاکر ایک ڈنڈا لگادیا۔ شیخ وہی ہے جو مرید ین کو ابتدائی زمانے میں سہارا دیتا ہے اور دعا کرتا ہے کہ اللہ کرے وہ دن آئے کہ اللہ سے ان کی نسبت بالکل قوی ہوجائے پھر ہر شخص دوسروں کو سہارا دے گا۔ وہ درخت بھی دوسروں کے لیے سہارا بن جاتا ہے، اس کی ایک شاخ کاٹ کر دوسرے کمزور درختوں کے لیے سہارا بنا کر لگادیتے ہیں۔یہ شاخیں اصل ہی سے تو ہیں۔جو درخت کبھی ایک ڈنڈے کے سہارے پر تھا وہ اتنا مضبوط ہوگیا کہ اس کی ایک شاخ کاٹ کر لگا دو تو دوسرے کمزور درخت اس سے سہارا لیں گے۔ اسی طرح دین پھیلا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم سے۔ صحابہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے سہارا پاکر قوی ہوئے، پھر ان کے صدقے میں تابعین قوی ہوئے، اور ان کے صدقے میں تبع تابعین قوی ہوئے۔ وہی سلسلہ آج تک چلا آرہا ہے۔اہل اللہ کی بصیرت حکیم الامت مجدّد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نوّر اللہ مرقدہٗ