صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
سکتے ہیں۔ اس مسجد کو خانۂ خدا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بیت اللہ صرف حرمِ کعبہ ہی کو کہہ سکتے ہیں، وہاں کے طواف سے حج ادا ہوتا ہے۔ ملتزم پر چپک کر رونے سے دعائیں قبول ہوتی ہیں،یہ ہے اللہ تعالیٰ کی نسبت۔اسی لیے مولانا رومی فرماتے ہیں کہ اولیاء اللہ کے ادب واکرام سے لوگ گھبراتے ہیں۔کہتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے؟ یہ تو شخصیت پرستی معلوم ہوتی ہے۔ میں بھی بندہ وہ بھی بندے، ہم کیوں ان کاادب کریں؟ تو مولانا نے فرمایا کہ دیکھو! بیت اللہ کاطواف کیوں کرتے ہو؟ اس لیے کہ اس یارِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن میں ایک مرتبہ کعبہ کو فرمادیا بَیْتِیْ یعنی یہ میرا گھر ہے ؎ کعبہ را یک بار بَیْتِیْ گفت یار اس نسبت سے آج سارا عالم بیت اللہ کاطواف کررہا ہے اور اس کے پتھر یعنی حجرِ اسود کو چوم رہا ہے مگر اپنے خاص بندوں کے بارے میں کیا فرمایا ؎ گفت یَاعَبْدِیْمرا ہفتاد بار لیکن مجھ کو ستّر دفعہ یَاعَبْدِیْ یعنی میرا بندہ کہا ہے۔اے میرے بندے،اے میرے بندے۔ تمام قرآن میں دیکھو اللہ نے ستّر سے زیادہ دفعہ مومنِ کامل کو اپنا بندہ کہا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ اللہ کے خاص بندوں کاادب نہ کیاجائے؟ کعبہ کو ایک مرتبہ بَیْتِیْ کہا تو اس کی یاد تو آپ کو طواف کے لیے پاگل کردے اور اس عَبْدِیْ کی یاد نے آپ پر کچھ اثر نہیں کیا کہ اللہ نے اپنے خاص بندوں کوعَبْدِیْ کہہ کر اپنا بندہ ارشاد فرمایا ہے۔ لہٰذا اللہ کے خاص بندوں کی محبت اللہ کی محبت کاتقاضا ہے اورمحبت کایہ پیٹرول منٹوں میں اللہ تک لے اڑتا ہے۔ہر زمانے میں شمس الدین تبریزی ہوتے ہیں اگر مجنون کو شمس الدین تبریزی کی صحبت مل جاتی جس نے مولانا رومی کو ولی اللہ بنایا تھا تو وہی مجنون بہت بڑا ولی اللہ ہوتا۔افسوس کہ اس کوکوئی شمس الدین تبریزی نہ ملا جو اس کے عشق ِلیلیٰ کو عشق ِمولیٰ سے تبدیل کردیتا ،لیکن میں آپ سے عرض کرتاہوں