صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
میں ہے، چاہے اس کے سینے میں علم کا سمندر ہی کیوں نہ ہو، تقویٰ کی برکت سے وہ قلندر ہوگا اور قسمت کا سکندر ہوگا ورنہ نفس کا غلام بن کر بندر ہوگا، کیوں کہ علم پر عمل کرنا آسان نہیں ہے جب تک کہ اہلِ عمل کی صحبت نصیب نہ ہو۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ مجھے تہجد کی توفیق نہیں ہوتی تھی، جب تھانہ بھون گیا، حاجی امداد اﷲ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ سے بیعت کی اور انہوں نے اﷲ اﷲ سکھایا تو اس کی برکت سے میں تہجد گزار ہو گیا۔ عادت اﷲ یہی ہے کہ نیک عمل کی توفیق اور نافرمانی سے بچنا بغیر اہلِ تقویٰ اور اﷲ والوں کی صحبت کے حاصل نہیں ہوتا۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس دو عالم لاؤ، دونوں قابل ہوں، بہت بڑے شیخ التفسیر اور شیخ الحدیث ہوں، ان دونوں میں ایک صحبت یافتہ ہو اور ایک بزرگ کا تربیت یافتہ نہ ہو اور مجھے نہ بتایا جائے، میں پانچ منٹ میں دونوں سے گفتگو کرکے بتادوں گا کہ یہ شخص اﷲ والوں کا تربیت یافتہ ہے اور یہ شخص خالی کتب بینی کرتا ہے مگر تربیت یافتہ نہیں ہے۔صحبت یافتہ اور غیر صحبت یافتہ کی ایک عجیب مثال اس کی ایک مثال اﷲ تعالیٰ نے میرے قلب کو عطا فرمائی جو میں نے الٰہ آباد میں مولانا شاہ محمد احمد صاحب، علمائے ندوہ اور مولانا مجیب اﷲ ندوی جامعۃ الارشاد کے مہتمم کے سامنے عرض کی کہ ایک درخت سے دو آملے گرے، ایک آملہ حلوائی اٹھا کر لے گیا اور اس سے کہا کہ ہم آپ کا مربّہ بنائیں گے، اس نے پوچھا کہ کیسے بناؤ گے؟ حلوائی نے کہا کہ ہم سوئی چبھوئیں گے اور تمہارا گندا، کسیلا اور رذیل پانی نکالیں گے، پھر تم کو چونے کے پانی سے دھو کر پانی میں جوش دیں گے یہاں تک کہ تمہارا کلیجہ تک پک جائے گا، پھر شیرہ میں ڈالیں گے تو تمہارا نام ہوگا ’’مربۂ آملہ‘‘ اور تم شیشے کے مرتبان میں رکھے جاؤ گے، اور پھر جب کوئی دل کا مریض ہوگا چاہے مفتی اعظم ہو یا وزیر اعظم ہو تو طبیب اس کو لکھے گا کہ’’ مربۂ آملہ گرفتہ از آبِ گرم شستہ ورق نقرہ پیچیدہ‘‘ اور آملہ پر چاندی کا ورق بھی لگا دو اور نہار منہ وزیر اعظم و مفتی اعظم بخورند۔ تو مربّہ بننے کے بعد