صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
کی ڈانٹ سے عزت اور بڑھ جاتی ہے۔ اور فرمایا کہ متکبر اپنی شان سمجھتا ہے اور وہی شیخ کی ڈانٹ سے ناراض ہوجاتا ہے۔ اور فرمایا:ابھی کیا اپنی شان بنا رہے ہو۔ جب تک قیامت کا فیصلہ نہ ہو۔یہی سمجھو اے اﷲ! ہم کسی شان کے قابل نہیں۔ اور میں ایک بہت تجربہ کی بات بتاتا ہوں جس پر شیخ کی ڈانٹ پڑتی ہے اس کا ڈینٹ نکل جاتا ہے اور جو ڈانٹنے کی بات پر نہ ڈانٹے وہ شیخ نہیں خائن ہے۔ جب موٹر میں ٹیڑھا پن آگیا تو مکینک جو ہے وہ کچھ تکنیک دکھائے گا اور ہتھوڑا مارے گا تاکہ موٹر کے ٹیڑھے پن کی سیٹنگ اور فٹنگ ہوجائے۔ جس طرح ہتھوڑے سے موٹر کا ڈینٹ نکلتا ہے اسی طرح شیخ کی ڈانٹ سے نفس کا ڈینٹ نکلتا ہے۔ اﷲ کا شکر ہے اتنی ڈانٹ کھائی ہے اختر نے اپنے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اﷲ کی کہ فلاں کام یوں کیوں کر دیا۔یہ لوٹا یہاں کیوں رکھ دیا۔آج تم نے گندم پسایا اور اس میں جَو کیوں نہیں ملایا؟ تو میں نے ایک دن کہا کہ حضرت! جو دور دور سے آتے ہیں آپ کے پاس اور سر جھکا کے مراقبہ میں بیٹھے رہتے ہیں اور دو دن رہ کر چلے جاتے ہیں آپ ان کو بڑا پیار دیتے ہیں اور ہم دن رات رہتے ہیں ڈانٹ ہی کھاتے رہتے ہیں تو یہ لوگ تو بڑے فائدے میں معلوم ہوتے ہیں کہ کبھی کبھی آگئے۔ دو دن مراقبہ کرنا آسان ہے کہ سرجھکائے بیٹھے رہے۔ تو حضرت نے فرمایا کہ جو شیخ کی ڈانٹ کھاتا ہے وہ لعل ہوجاتا ہے ۔روشنی میں فاصلے نہیں ہوتے ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اﷲ والوں کی صحبت سے ان کے قلب کے انوار طالبین کے قلوب تک کیسے پہنچتے ہیں جب کہ شیخ کا جسم الگ ہے جسم میں قلب ہے اور قلب پر پھیپھڑا ہے پھر سینہ ہے اور سینے پر کھال ہے۔ لہٰذا نسبت مع اﷲ اور تعلق مع اﷲ کے انوار جو ان کے دل میں ہیں دوسروں کو کیسے پہنچ سکتے ہیں جب کہ دونوں کے اجسام میں فاصلے ہیں۔ اس کا جواب سلطان الاولیاء مولاناجلال الدین رومی نے دیا ہے ؎ کہ زدل تادل یقین روزن بود نے جدا ودور چوں دو تن بود