صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
اہل اللہ سے بے تعلقی کا انجام اور اہل اللہ سے وابستگی کا انعام جو مسٹر بالکل آزاد ہے اس کو کیا پتا کہ اللہ کے راستے میں کیا غم اٹھانا پڑتا ہے؟ وہ تو مثل سانڈ کے جس کھیت میں دل چاہا منہ مار لیا، اور ڈنڈے کھارہے ہیں، اور کہتے ہیں کہ آزادی میں بڑا مزہ ہے۔ ہم کسی کے ساتھ نہیں جُڑیں گے۔ شیخ وغیرہ کے ساتھ جُڑنے سے وہ گھبراتا ہے۔کہتا ہے کہ دیکھو !جو بیل کھونٹے پر بندھتا ہے وہ ہر وقت بندھا رہتا ہے اور سانڈ کیسے مزے کرتا ہے! لیکن پتا ہے کہ سانڈ جب مرتا ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں کراتا۔اسے چیل کوّے کھاتے ہیں کیوں کہ اس کا کوئی مالک نہیں ہے۔ اس کا کسی سے تعلق نہیں ہے۔اور وہ ہر کھیت میں کسان کا ڈنڈا کھاتا ہے ، اس کی کھال دیکھ لو سلامت نہیں ہوتی۔ دنیا میں ایسا کوئی سانڈ نہیں جس کی کھال پر ہزاروں لاٹھیاں نہ پڑی ہوں، لیکن جو بیل کسی کے کھونٹے سے بندھا ہے تو اس کا مالک اس کو چارہ بھی دیتا ہے اور صبح شام کھونٹا بھی بدلتا ہے اسے رحم آتا ہے کہ میرا جانور دن بھر یہاں بیٹھے بیٹھے تھک گیا ہوگا۔ اب اس کو دوسری جگہ باندھ دیا اور جب بیمار ہوجاتا ہے تو دوا بھی لاتا ہے۔ مویشی ہاسپٹل لے جاتا ہے اور اگر مر جاتا ہے تو روتا بھی ہے، جب کہ سانڈ کے مرنے پہ کوئی نہیں روتا۔ جو لوگ اللہ والوں سے وابستہ ہیں جب ان کا انتقال ہوتا ہے تو کتنے اللہ والے روتے ہیں۔ اور جس اللہ والے کی مجلس میں جایا کرتا تھا وہ بھی روتا ہے کہ یا اللہ! میرے پاس آتا رہتا تھاآپ اس کو محروم نہ فرمایئے۔مولانا رومی فرماتے ہیں کہ جو کانٹے پھولوں کے ساتھ وابستہ ہیں ان کو باغباں گیٹ آؤٹ نہیں کرتا جیسے گلاب کے کانٹے، اور جو خالص کانٹے ہیں ان کو باغ سے نکال دیتا ہے۔ اس لیے کہ اگر تم خار ہو تو پھولوں کے دامن میں لگے رہو۔ مجھے اپنے دو شعر یاد آئے ؎ مجھے احساس ہے تیرے چمن میں خار ہے اخؔتر مگر خاروں کا پردہ دامنِ گل سے نہیں بہتر چھپانا منہ کسی کانٹے کا دامن میں گلِ تر کے تعجب کیا چمن خالی نہیں ہے ایسے منظر سے