صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
بسم اللہ الرحمٰن الرحیممقدّمہ بے پناہ حمد وثنا اور تعریف اس خدائے برحق کے لیے جس نے گوشت کے لوتھڑوں سے تخلیق شدہ انسان کو اپنی ولایت اور دوستی کے لیے منتخب فرمایا۔اورلاکھوں درود وسلام ہو اس نبی سیدالاصفیاء والا تقیاءصلی اللہ علیہ وسلم پر جس نے ہوس وحرص کی گھنگورگھٹا میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کے سامنے معرفتِ الٰہیہ کی مشعل روشن کی ۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برگزیدہ ساتھیوں،پاک فرزندوں اور اُمت کے ان اہلِ صفا واہلِ وفا پر جنہوں نے جہالت وضلالت کی تیز وتُندہواؤں میں بھی اسباب کے فقدان کی حالت میں بہ اندازِ خسروانہ چراغِ سنت کو فروزاں رکھا۔ کتاب وسنت کے بغور مطالعہ کرنے والے پر صحبتِ اہل اللہ کی اہمیت وضرورت عیاں ہوجاتی ہے ،لیکن اس کی لذت وحلاوت اہل اللہ سے منسلک ہونے سے ملتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دورِنبوت سے اس کا سلسلہ چلا آرہا ہےاورہرزمانے میں اہل اللہ نے اس کی افادیت وضرورت کو اُمت کے سامنے پیش کیا ہے۔ جیسا کہ مفسّر کبیر،مفتیِ بغداد علامہ سیّد محمود آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایۂ ناز تفسیر’’روح المعانی‘‘ میں آیت یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ کُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِیۡنَ؎ کی تفسیر فرمائی ہے کہ خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَہُمْ؎ یعنی اللہ والوں کے پاس اتنا رہو کہ تم بھی اُن جیسے بن جاؤ۔اور’’بخاری شریف‘‘ کی حدیث میں ہے کہ ھُمُ الْجُلَسَاءُ لَا یَشْقٰی جَلِیْسُھُمْ الخ؎ (یعنی اہل اللہ ایسے مقبولانِ حق ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور شقی نہیں رہ سکتا) کے ذیل میں علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مشہور شرح’’ فتح الباری‘‘ میں رقم طراز ہیں: ------------------------------