صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
نورِ نبوت اللہ والوں کی صحبت سے حاصل ہوتا ہے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے دریائے قلبِ نبوت میں قربِ الٰہی کی جتنی مچھلیاں تھیں صحابہ نے اس قلبِ مبارک سے اپنے دل ملا دیے ؎ قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل کر دے یہ آگ لگتی نہیں ہے لگائی جاتی ہے صحابۂکرام نے اپنے دل پیش کر دیے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دریائے قلبِ نبوت کی معرفت ومحبت اور خشیت کی تمام مچھلیاں صحابہ کے قلوب میں داخل ہوگئیں اور وہ مچھلیاں آج تک سینوں سے سینوں میں منتقل ہو رہی ہیں۔ یہ کتابوں سے منتقل نہیں ہو رہی ہیں۔ اس کی کیا دلیل ہے؟ اپنے زمانے کے امام بیہقی اور مفسر اعظم، تفسیر ِمظہری کے مصنف علامہ قاضی ثناءاللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم ِنبوت تو مدرسوں سے اور کتابوں سے پا جاؤگے لیکن نورِ نبوت اوراقِ کتب سے حاصل نہیں ہو سکتا کیوں کہ کسی کاغذ میں دَم نہیں ہے جو حق تعالیٰ کے نور کا حامل ہوسکے،کاغذ میں طاقت نہیں ہے کہ وہ اللہ کے نور کو برداشت کر لے۔یہ اللہ والوں کے دل ہوتے ہیں جو حق تعالیٰ کے نور کو برداشت کر لیتے ہیں۔ اس لیے عہدِ نبوت سے یہ نور سینوں سے سینوں میں، قلوب سے قلوب میں منتقل ہو رہا ہے۔ مدارسِ دینیہ سے تم لوگوں نے جو علمِ نبوت حاصل کیا یہ ابھی آدھا علم ہے۔جب نورِ نبوت ملے گا تب نور کامل ہوگا اور علم پر عمل کی ہمت آئے گی اور نورِ نبوت صرف سینۂ اہل اللہ سے ملتا ہے۔ علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ یہ ہیں: ’’علمِ ظاہرصلی اللہ علیہ وسلم از مدارسِ دینیہ بجوید، واما نورِ باطن صلی اللہ علیہ وسلم از سینۂدرویشاں باید جست۔‘‘ علمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم تو مدارسِ دینیہ سے حاصل کرو لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نورِ باطن درویشوں کے سینوں سے حاصل کرنا چاہیے۔