صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
تیسرا نسخہ دونوں نسخوں( حق تعالیٰ کے انعامات کامراقبہ ، ذکر اللہ کاالتزام ) کی روح ہے۔ اس لیے کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں خدا کی محبت مانگی وہیں اللہ والوں کی محبت بھی مانگی: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَ الْعَمَلَ الَّذِیْ یُبَلِّغُنِیْ حُبَّکَ؎ اے خدا!مجھے اپنی محبت بھی دے اور اپنے عاشقوں کی محبت بھی دےاور ان اعمال کی محبت بھی دے جن سے تیرے عشق ومحبت کی دولت ملتی ہے۔ علامہ سیّد سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ اس حدیثِ پاک میں خدا تعالیٰ کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ والوں کی محبت کیوں مانگی ؟اس میں کیاراز ہے؟ فرمایا کہ اللہ والوں کی محبت ایسی چیز ہے جو خدا کی محبت اور اعمال کی محبت کے درمیان رابطہ قائم کردیتی ہے۔ یعنی جو لوگ اللہ والوں سے محبت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی محبت بھی دے دیتے ہیں اور اعمال کی توفیقات بھی دے دیتے ہیں۔صحبت ِاہل اللہ کی ضرورت پرقاضی ثناء اللہ پانی پتی کاارشاد قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دیکھو اے علماء حضرات! جو کچھ کتابوں میں پڑھتے ہویہ کیا ہے؟ یہ علمِ نبوت ہے۔ علمِ نبوت ایک تو ظاہری ہے، لیکن اگر چاہتے ہو کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا نورِ باطن بھی مل جائے تو ’’از سینۂ درویشاں با ید جست‘‘اللہ والوں کے سینوں سے حاصل کرو،یہ کون کہہ رہا ہے؟ یہ اپنے وقت کا امام بیہقی قاضی ثنا ء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر مظہری کا مصنّف۔حضرت مظہر جانِ جاناں کا خلیفہ ہے، شاہ عبد العزیز محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ان کو امام بیہقی فرماتے تھے۔تقویٰ عبادت سے نہیں صحبت ِ صالحین سے نصیب ہوتا ہے اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اور تقویٰ کے لیے جب تک ہم اللہ والوں کی اور اہل ِتقویٰ کی صحبت اختیار نہیں کریں گے ہمت نہیں ہوگی۔ یہ نسخہ اللہ تعالیٰ نے بتایا ------------------------------