صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
فرما دیتے ہیں تو خاک کی عینیت اور ماہیت تبدیل ہو گئی۔ اسی طرح شراب حرام ہے لیکن جب شراب سرکہ بن گئی تو اس کی حقیقت بدل گئی، جو حرام تھی اب سرکہ بن کر حلال ہو گئی۔ اب اس سرکہ کو مفتی اعظم بھی پی سکتا ہے، شیخ الحدیث بھی پی سکتا ہے، شیخ المشایخ بھی پی سکتا ہے۔ اسی طرح گدھا حرام ہے لیکن نمک کی کان میں گر کر مر گیا اور ’’ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شد‘‘ نمک کی کان میں جو چیز بھی جاتی ہے نمک بن جاتی ہے تو وہ گدھا بھی مرنے کے بعد نمک بن گیا۔اب اس کی ماہیت تبدیل ہو گئی اور نمک کے پیکٹوں میں اس کی پیکنگ ہو گئی۔ لہٰذا اب بڑے بڑے مفتیانِ کرام اور علمائےکرام سے لے کر عوام تک اسے کھا رہے ہیں،لیکن اگر گدھا نہ مرتا اور سانس لیتا رہتا تو گدھے کا گدھا ہی رہتا کبھی نمک نہ بنتا۔ اس مثال سے مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ ایک نصیحت فرماتے ہیں کہ اگر اﷲ والا بننا چاہتے ہو تو خانقاہوں میں جا کر اﷲ والوں کی صحبت میں اپنے نفس کو مٹاؤ، شیخ کی رائے میں اپنی رائے کو فنا کر دو تب جا کر تم اﷲ والے بنو گے، لیکن اگر اپنا تشخص باقی رکھو گے اور شیخ کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے باقی رکھو گے تو ایسا شخص گدھے کا گدھا ہی رہے گا اور ’’خر آمد و خر برفت‘‘ کا مصداق ہوگا کہ جب آیا تو گدھا تھا اور واپس گیا تو گدھا ہی گیا یعنی محروم آیا اور محروم ہی گیا۔ یہ راستہ نفس کو مٹانے کا ہے۔ اپنے جذبات و خواہشات کو فنا کردو، باہ ہو یا جاہ، غصہ ہو یا شہوت، شیخ جو ہدایت دے اس میں ’’اگر‘‘ ’’مگر‘‘ مت لگاؤ،اس کی رائے کو بلا دلیل تسلیم کرکے عمل کرو،پھر دیکھو کیسی تبدیلِ ماہیت ہوتی ہے۔ فسق و فجور ولایت و تقویٰ سے تبدیل ہوجائے گا اور بزبانِ حال کہو گے کہ ؎ تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کر دیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کر دیاصحبتِ اہل اﷲ کا ایک کتے پر اثر حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے ملفوظات میں ہے کہ ایک کالا کتا