صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
منہ چھپائے ہوئے ہیں ان کو باغبان گلستان سے نہیں نکالتا ،لیکن جو خالص کانٹے ہیں اور پھولوں سے اعراض کیے ہوئے، ان سے مستغنی اور دور ہیں ان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے۔ فرماتے ہیں ؎ آں خار می گریست کہ اے عیب پوش خلق شد مستجاب دعوت او گلعذار شد ایک کانٹا زبانِ حال سے رو رہا تھا کہ اے مخلوق کے عیب چھپانے والے خدا! میرا عیب کیسے چھپے گا کہ میں تو کانٹا ہوں؟ اس کی یہ فریاد وگریہ وزاری قبول ہوئی اور حق تعالیٰ کے کرم نے اس کی عیب پوشی اس طرح فرمائی کہ اس پر پھول اگا دیا جس کی پنکھڑیوں کے دامن میں اس خار نے اپنا منہ چھپا لیا۔ پس اگر ہم کانٹے ہیں، نالائق ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ اللہ والوں کی صحبت میں رہا کریں۔ اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ! اوّل تو ہم خلعتِ گل سے نواز دیے جائیں گے یعنی اللہ والے ہوجائیں گے۔ ورنہ اگر کاملین میں نہ ہوئے تو تائبین میں ان شاء اللہ! ضرور اٹھائے جائیں گے، مثلِ خار کے محروم نہ رہیں گے۔ اس مضمون کو احقر نے اپنے اشعار میں یوں بیان کیا ہے۔ شیخ کو مخاطب کرتے ہوئے ؎ ہمیں معلوم ہے تیرے چمن میں خار ہے اخؔتر مگر خاروں کا پردہ دامنِ گل سے نہیں بہتر چھپانا منہ کسی کانٹے کا دامن میں گلِ تر کے تعجب کیا چمن خالی نہیں ہے ایسے منظر سےشقاوت کی سعادت سے تبدیلی اہل اللہ کی صحبت کاادنیٰ فائدہ یہ ہے کہ ان سے تعلق رکھنے والا گناہ پر قائم