صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
فیض نہیں ہے؟ یہ صاحبِ قونیہ کا فیض نہیں ہے؟ اﷲ کو تلاش کرنے سے پہلے اﷲ تک پہنچانے والوں کو تلاش کرو، راہ بر کو تلاش کرو منزل سے پہلے۔ اﷲ ہماری منزل ہے مگر ہمیں راہ بر چاہیے جو ہمیں اﷲ تک پہنچنے کا راستہ بتائے۔محبتِ الٰہیہ اور اس کا طریقۂ حصول پہلے شعر میں مولانا نے دنیا میں آنے کا مقصد بتا دیا کہ وہ اﷲ کی یاد اور اﷲ کی تلاش میں بے چین رہنا ہے اور اس مقصد کے حصول کا طریقہ بھی بتا دیا کہ ؎ بشنو از نے چوں حکایت می کند جس طرح بانسری بانس کے مرکز سے کٹ کر آئی ہے اور اپنے مرکز کو یاد کرکے روتی ہے تو اے لوگو! تم بھی عالمِ ارواح سے، عالمِ امر سے، اﷲ کے عالمِ قرب سے کٹ کر دنیا میں آئے ہو تم کیوں اﷲ کو یاد کرکے نہیں روتے؟ تم کیوں اپنے مرکز کو یاد نہیں کرتے؟ کیوں دنیا کی رنگینیوں میں پھنس کر تم اﷲ کو بھول گئے؟ لہٰذا بانسری کی طرح تم بھی روؤ! اﷲ کو یاد کرو جن کے پاس سے یہاں آئے ہو۔ لیکن بانسری کو رونے کی یہ توفیق جب ہوتی ہے جب وہ کسی کے منہ میں ہوتی ہے، بانسری خود نہیں بجتی بجائی جاتی ہے۔ اس کی صلاحیت آہ و فغاں محتاج ہے کسی بجانے والے کی۔ جب کوئی بجانے والا اس کا ایک سرا اپنے منہ میں لیتا ہے تب اس میں آہ و نالے پیدا ہوتے ہیں ورنہ ایک لاکھ سال تک اگر زمین پر پڑی رہے تو بج نہیں سکتی۔ اسی طرح تمہاری روح کے اندر بھی اﷲ کی یاد میں رونے کی صلاحیت موجود ہے مگر رونا جب نصیب ہوگا جب کسی اﷲ والے سے تعلق کرو گے۔ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دو گے، اس کو اپنا مربی بناؤ گے۔ اس تعلق کی برکت سے اس اﷲ والے کا دردِ دل تمہاری روح میں داخل ہوجائے گا اور پھر تمہاری روح بھی مثل بانسری کے اﷲ کی یاد میں رونے لگے گی۔ اور اہل اﷲ کی صحبت کا کیا اثر ہوگا؟ اس کو دوسرے مصرع میں بیان کرتے ہیں کہ ؎ واز جدائی ہا شکایت می کند جس طرح بانسری اپنے مرکز کی جدائی کا غم بیان کرتی ہے خود بھی روتی ہے اور دوسروں