صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
نسبت کے معنیٰ اصطلاحِ صوفیا میں یہ ہیں کہ بندے کی روح کا اﷲ سے اور اﷲ کا بندہ سے قوی رابطہ ہوجائے۔ کبھی نسبت یک طرفہ ہوتی ہے کہ بندے کا اﷲ سے رابطہ ہو لیکن اﷲ کا بندے سے نہ ہو۔ جیسے بدعتی پیر ہیں کہ محنت اور مجاہدات بھی کرتے ہیں لیکن قرب نصیب نہیں ہوتا۔ وہ تو اپنے آپ کو اﷲ کا ولی سمجھتے ہیں اور اﷲ کے یہاں اولیاء کے گروہ میں ان کا نام نہیں ہوتاکیوں کہ اﷲ کا ولی ہونے کے لیے تو اتباعِ سنت اور نافرمانیوں سے پرہیز ضروری ہے، صرف ذکر اور مجاہدوں سے کیا ہوتا ہے، وہ یہ مجاہدے تو کرتے ہیں ذکر بھی کرتے ہیں لیکن دوسرے گناہوں میں مبتلا ہیں، سنت کے مطابق زندگی نہیں پھر ان کو قرب کیسے حاصل ہوگا؟ ان کا حال بالکل ایسا ہے جیسا مولانا رومی نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کہتا پھر تا تھا کہ میری بادشاہ کی لڑکی سے شادی ہو رہی ہے جب کہ بادشاہ کو محل میں اس کی خبر بھی نہیں تھی ؎ خانۂ داماد پُر از شور و شر خانۂ دختر نبودے زاں خبر ایسے ہی یہ بدعتی شور مچاتے ہیں کہ ہم اﷲ کے ولی ہیں لیکن اولیاء کے گروہ میں ان کا نام نہیں ہوتا۔ مجنوں بنے پھرتے ہیں اور لیلیٰ کے یہاں مجنوں کی فہرست میں ان کا نام نہیں ہے۔ اﷲ کا شکر کرو کہ کسی ایسے کے چکر میں نہیں آگئے ورنہ عمر بھر خاک چھانتے اور کچھ حاصل نہ ہوتا۔ بچوں کی ابتدا کے زمانے میں ماں کا دودھ ہی کام کرتا ہے۔ اسی سے نشوونما ہوتی ہے۔ چاہے پھر پہلوان بن جاؤ، پانچ فٹ دس انچ کا قد ہوجائے پھر ماں کے دودھ کی ضرور ت نہیں رہتی لیکن ماں کے سامنے وہ گردن کو نہیں اٹھا سکتا کہ اس کے دودھ سے ہی تو یہ قد پانچ فٹ کا ہوا ہے۔ اسی طرح نسبت مع اﷲ حاصل کرنے کے بعد شیخ کے پاس رہنے کی ضرورت نہیں رہتی، اس کی روح میں خود چراغ جل جاتا ہے، اسے بغیر شیخ کے بھی ہر وقت اﷲ کا قرب حاصل رہتا ہے لیکن شیخ کے آگے کندھوں کو جھکائے رکھنا پڑے گا کیوں کہ اس کی تربیت ہی سے تو یہ مقام حاصل ہوا ہے۔ بس چند روز محنت کرنی