صحبت اہل اللہ کی اہمیت اور اس کے فوائد |
ہم نوٹ : |
|
کہ کتاب ہی لیے پھرتے ہو یا کہیں دعوت وعوت بھی ہے۔کباب کب ملے گا؟تومیرے شیخ فرماتے تھے کہ علم کباب ہے مگر کچے کباب کی ٹکیہ ہے بِجَمِیْعِ اَجْزَاءِہٖ وہ کباب ہے، سارا قیمہ پسا ہوا ہے، بڑی الائچی، چھوٹی الائچی، لونگ جتنے اجزا شامی کباب میں ہوتے ہیں سب ہیں مگر تلا نہیں گیا، اب اس کباب کو جو کھائے گا تھوکے گا۔ آج لوگوں کو یہی شکایت ہے کہ میاں! مولویوں کی کون سنے ان کے پاس کوئی مزہ نہیں ہےیہ کچے کباب ہیں، لیکن اگر اسی کچے کباب کو کڑھائی میں ڈال کر اور سرسوں کا تیل ڈال کر نیچے آگ جلاؤ اور کباب تل کے گرما گرم سرخ ہوجائے پھر دیکھو! وہ کیسے مست کرتا ہے۔اب کون ظالم ہے جووہاں سے گزر جائے اورکھائے نہیں، کھائے گا نہیں توکم از کم سونگھ تو لے گا اور واہ رے کباب واہ رے کباب واہ رے کباب! کرتا رہے گا۔ تو میرے شیخ فرماتے تھے کہ جو عالم مجاہدہ نہیں کرتا، گناہوں سے نہیں بچتا، حسینوں سے نہیں بچتا، ہر کالی گوری پر نظر ڈالتا ہے اور تقویٰ سے نہیں رہتا تو اس عالم کے علم کا کباب کچا رہتا ہے، اس میں خوشبو نہیں ہوتی، اور جو اﷲ کے عشق میں تقویٰ سے رہتا ہے اور اﷲ کے خوف میں اپنی بُری خواہشات کو جلا دیتا ہے تو اس کا دل شامی کباب بن جاتا ہے اس کی گفتگو میں بھی اس کا اثر ہوتا ہے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ کپڑا ملتا ہے کپڑے والوں سے، کباب ملتا ہے کباب والوں سے اور اﷲ ملتا ہے اﷲ والوں سے۔ بتاؤ کیسی سادہ بات ہے! اب آپ ایک اشکال کریں گے کہ تم آخر میں کباب کہتے ہو شروع میں کباب نہیں کہتے تو میںتَرَقِّیْ مِنَ الْاَدْنٰی اِلٰی الْاَعْلٰی کرتا ہوں، چوں کہ مجھے کباب سے مناسبت ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ جس کا دل جلا بھنا ہوگا اس کو کباب پسند ہوگا، جو بھی حرام خواہشات کو جلائے گا تو اس کا دل جلا بھنا کباب ہوگا تو اَلْجِنْسُ یَمِیْلُ اِلَی الْجِنْسِ تو اس کوکباب کی طرف فطرتاً میلان ہوگا، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کباب کا وزن شباب سے ملتا ہے۔ مدینہ شریف میں ایک ڈاکٹر نے مجھ کو کباب کھلایا، میں نے کہا کہ بھئی! تمہارے کباب میں بہت مزہ آیا ؎